24 جون 2011

ایلس

”فورایور ٹوینٹی ون۔“ میرے ایک پسندیدہ سٹور کا صفحہ سامنے ہے۔میں نے شرٹس کے نئے رنگ دیکھے ۔ پھر میک اپ کےسٹور پر لپ اسٹکس کے شیڈز دیکھے ۔اگلے صفحے پر نئے ڈیزائینر ہینڈ بیگ دیکھ کر میری آنکھوں کی چمک بڑھ گئی۔ آنلائن شاپنگ میں چیزوں کے رنگ ۔ فیشن۔ سٹائل سب کچھ بالکل اپ۔ ٹو ڈیٹ ہوتا ہے آنکھیں بند کر کے بھی اٹھاؤ تو غلطی کا امکان کم ہے ۔ سٹورز میں تو کبھی کام کی چیز نہیں ملتی اور یہاں تو انتخاب ہی مشکل ہو جاتا ہے۔


22 جون 2011

میں ایک جھوٹ جیتی ہوں

میں ہوا کے کان میں اپنے خواب کہتی ہوں
ریت پر تصویریں نقش کرتی ہوں
پانی کے ورق پر اپنے راز لکھتی ہوں۔

میں تم سے کچھ نہیں کہتی
تم کب اس کو سمجھو گے ۔۔

مکمل نظم کے لیے کتاب دیکھیں 

دریچوں میں جگنو

رافعہ خان

14 جون 2011

دیوان حافظ، فالنامہ اور ایٹ بال


"اور آپکا پسندیدہ رنگ"
"اور آپ کا پسندیدہ نمبر۔۔"
"اور آپ کا سوال۔۔"
"کیا ہم ویک اینڈ پر زو جائیں گے؟"
"کیا میرا دوست آج کھیلنے آئے گا؟"
"کیا ماما کیک بنائیں گی؟"
"کیا میرا ٹیسٹ اچھا ہوگا؟"
"کیا آج بارش ہوگی؟"

ساری صبح لگا کر بنائے گئے کاغذ کے فورچون ٹیلر سے وہ ہاں/ ناں والے سوالات پوچھ پوچھ کر ہلکان ہو رہے تھے۔

 لیکن بچوں کو ہر طرح کی علتوں سے دور رکھنا، ان کو ہر وقت صحیح غلط کی تمیز دیتے رہنا اور اصلاح کرنے کا کوئی موقع نہ جانے دینا اکثر والدین کی طرح میرا بھی پسندیدہ مشغلہ ہے۔ اس وجہ سے میں نے آج تک انہیں ایٹ بال نہیں لے کر دی۔ لیکن انہوں نے دوسرا رستہ نکال لیا ہے۔ میں نے موقع دیکھ کر دوبارہ شروع ہونے کی کوشش کردی

اس کاغذ پر یہ جوابات آپ نے خود لکھے ہیں۔ اس میں کوئی سائینس ملوث نہیں کیک کا آپ مجھ سے براہ راست پوچھ سکتے ہو اور بارش کا موسم کے حالات میں معلوم ہو جائے گا۔ اسی طرح۔۔"
"ہم صرف تھوڑے سے فن کے لیے کر رہے ہیں ماما۔۔"
انہوں نے مدافعاتی بیزاری سے احتجاج کیا اور سوال پوچھنے والی چہک سرگوشیوں میں ڈھل گئی۔ مجھے ہنسی آ گئی اور میں بظاہر وہاں سے ہٹ گئی۔ مجھے ہلکے کیسری رنگ کا دیوان حافظ مترجم یاد آگیا تھا۔

بچپن میں ہمارے گھر میں متنوع موضوعات پر اردو کی کتابوں کی ایک کثیر تعداد موجود تھی۔ ان دنوں جب اشتیاق احمد کی قوت تحریر ہماری رفتار مطالعہ سے بہت کم تھی، نئے درجوں کی کورس کی ساری کتابوں کی ساری کہانیاں ہفتہ بھر میں ختم ہو جاتی تھیں، ہمیں درجہ بدرجہ الماریوں میں چنی ان کتابوں میں جھانکنے اور کتابیں چھانٹنے کا اتفاق اکثر ہوتا تھا۔

کتابوں کی درجہ بندی کے حقیقی اصولوں سے ناواقفیت کی بنا پر ہمارے دماغوں نے اپنے گمان، خیال اور بڑوں کے مبہم رویوں سے خود سے ایک درجہ بندی کی ہوئی تھی سو عرصہ تک ہم سبھی سمجھتے تھے کہ سب سے اوپر قران پاک کے ساتھ چمکیلی جلدوں والی سبھی کتابوں کو باوضو پڑھا جاتا ہے۔ ان دنوں ہم الرحیق المختوم کے ساتھ رکھا بہشتی زیور بھی صرف رمضان میں ہی مطالعہ کرتے۔

اگلے خانے میں آنے والی کتابیں بھی کچھ تنبیہی نگاہوں کے باعث ان دواؤں کی طرح لگا کرتیں جن پر بچوں کی پہنچ سے دور رکھنے کی خاص احتیاط درج ہوتی ہے۔ سو اکثرگرمیوں کی خاموش دوپہروں میں کرسی رکھ کر ہم بھی خاص احتیاط سے کچھ بھی ہلائے جلائے بغیر ان کو اتارتے اور سمجھنے کی کوشش کرتے کہ کس چیز کو ہماری پہنچ سے دور رکھا جا رہا ہے۔

خیر ان اوپری خانوں میں محفوظ کتابوں کی حقیقی تفصیل اور احوال دگر کبھی آغا کی زبانی سنیے گا۔ مجھے تو فقط یہ یاد ہے کہ اس وقت یہی گتھی حل نہ ہوتی تھی کہ نقش چغتائی، دیوان حافظ، میری لائبیریری کے چھپے ان عالمی شہ پاروں کے تراجم یا میراجی سے مفتی تک کی ایسی ہی دوسری کتابوں میں ایسا کیا تھا جسے ہماری پہنچ سے دور رکھا جانا چاہیے تھا۔ کیونکہ نچلے خانوں میں تاریخی ناولوں اور ڈایجسٹوں میں بہت سلیس الفاظ میں وہی تحریریں اور وہم قبا میں ملبوس وہی تصویریں ہماری دسترس سے قریب تر، قطار در قطار پڑی تھیں۔ شائد بڑوں کے ذہنوں میں ان کتابوں کی چھپائی میں سیاہی کی شدت ان کی خود حفاظتی کی دلیل تھی۔ جو ایک حد تک سچ بھی ہے۔۔ مگر کیا کیا جائے کہ کتاب کا فاقہ بری شے ہے۔۔

سو ایسے ہی ایک دن ہم نے دیوان حافظ دریافت کیا۔ جس کی ابتدا میں حافظ خوانی اور اردو مقدمہ میں تفصیل سے فال نکالنے اور اس کے مصدقہ ہونے وغیرہ وغیرہ کے بارے میں حافظ پر حلف اٹھائے ہوئے تھے۔ گرمیوں کی گرم دوپہروں میں ہم لوگ گھٹنے موڑے، سر جوڑے ایسے ہی آہستہ آہستہ سوالات کرکے حافظ کو شائد ہلکان کر دیا کرتے۔ شروع میں ہم سوالات باآواز بلند کرتے تھے اورایک ساتھ آنکھیں میچ لیتے تاکہ فال کو زیادہ سے زیادہ خالص کیا جا سکے۔

بعد میں سوالات میں ایک پرائیویسی آتی گئی اور ہم ذہن میں جو سوچتے اس کا جواب چاہتے اور باقیوں کو کچھ اور ہی بتاتے۔ اور حاضرین آنکھیں کھلی رکھتے مبادا فال میں کوئی غلطی نہ ہوجائے۔ وہ بچپن کے دن تھے۔ ہر سوال کا جواب عموما صحیح ہوتا۔ اور مقدمہ میں تنبیہہ بھی تو تھی کہ فال بالکل سچ بتاتی ہے۔ اگر کوئی کسر ہے تو ہمارے یقین میں۔ اور یقین میں ہم نے کبھی کمی نہیں رکھی۔

داہنی سمت کے صفحے کا پہلا شعر سوچ کر جب بھی میں نے کلام حافظ کھولا ایک ہی شعر نکلا اور بلاشبہ زندگی کے تمام مسائل کا حل اسی شعر سے ہو جاتا تھا۔۔۔ شعر مجھے یاد نہیں ترجمہ کچھ ایسے تھا کہ صبح دم جب نسیم صبح جنت کی جانب سے آتی ہے تو خوشبوئے دوست لاتی ہے۔ وغیرہ۔۔ معلوم نہیں اس کو میں نے ہر مسئلے پر کیسے فٹ کیا۔ لیکن بہت بعد میں مجھ پر کھلا کیہ کثرت فال سے چند صفحات ڈھیلے ہوچکے تھے اور بار بار مخصوص مقامات سے کھل کھل جاتے ۔۔

بہرحال میری ناسمجھی کے وہ دن گزر گئے ہیں۔ اور اردو میں لکھی کتابیں ہندسوں اور علامات میں لکھی کتابوں سے بہت دور رہ گئی ہیں۔ اب جو کتابیں درجہ بدرجہ میری الماریوں میں چنی ہیں ان کو میں نے کبھی نہیں پڑھا۔ مسلسل دیکھنے سے مجھے ان کے نام زبانی یاد ہو گئے ہیں۔ ایسے ہی۔۔ پائیتھون، سیکیورٹی اسینشلز، راوٹنگ اینڈ سویچنگ۔۔ ان کو کبھی کھولو تو ان میں لفظ کم اور ھندسے زیادہ ہوتے ہیں۔ میپنگ ٹیبلز اور آئی پی ماسکنگ۔۔ سب نیٹس ڈیزائن اور لیرز اف کمیونیکیشن۔۔ کیا میں کچھ سینس بنا رہی ہوں۔۔ شائد نہیں۔ یہ میری ناسمجھی کے نئے دن ہیں۔ ایسے ہی بیٹھے بیٹھے حافظ کے فالنامے کو ایٹ بال سکرپٹ پر منطبق کرنے کی کوشش کی آپ بھی دیکھیں اور لطف اٹھائیں۔

اپنا سوال لکھیے: ۔   (یاد رہے کلام حافظ کچھ ستم ظریف واقع ہوا ہے۔)




جواب:۔





  اگر مزہ نہیں آیا تو یہاں پر روایتی ایٹ۔بال انداز میں کوشش کریں۔

سوال:۔




جواب:۔


اس سکرپٹ کا انتخاب صرف تفریح کی خاطر کیا گیا ہے اور تبدیلی میں کسی قسم کے سنجیدہ مقاصد کو پیش نظر نہیں رکھا گیا۔