11 جون 2010

سچ ادھورا ہے ابھی

ابتدائی طور پر یہ دیباچہ میں نے پہلے ایڈیشن کی اشاعت کے وقت لکھا تھا۔ ایپل بک پر موجود نئی ای بک میں یہ تحریر شامل نہیں ہے۔ اس لیے اسے یہاں بلاگ پر شائع کیا ہے۔

 پیش نظم ۔سچ ادھورا ہے ابھی 

یہ میرا دوسرا مجموعہ کلام ہے۔ دوسرا قدم۔ جستجوئے آرزو میں کبھی تو ایک ہی جست میں قصہ تمام ہو جاتا ہے لیکن کبھی انتظار کی، پہچان کی، کوششِ پیہم میں صدیاں بیت جاتی ہیں۔ دوسرا قدم رکھنے کی جگہ ہی نہیں ملتی۔ خیالوں کا قریہ قریہ جھانک لیا جاتا ہے، جذبوں کے سمندر کے سمندر پار ہو جاتے ہیں، لفظوں کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے، پھر وقت کی گنجائش ہی ختم ہو جاتی ہے، دوسرا قدم رکھنے کی جگہ ہی نہیں ملتی۔ ناتمام افسانہ کوئی موڑ دے کر تہ کردیا جاتا ہے۔ میرے ساتھ لیکن نہ پہلا معاملہ ہے نہ دوسرا۔ بلکہ ایک ایسی صورت ہے جہاں ہر اٹھتا قدم ارتقاء کی اک کڑی بن جاتا ہے۔ درجہ بدرجہ مقصود حقیقی کی طرف لے جاتا ہے۔

اگر میرا یہ سفر مادی جسم کے ساتھ ہوتا جہاں پہلا قدم اٹھاتے ہی معلوم ہوتا ہے پاؤں تلے موسموں کے سرد گرم رویوں سے ڈھلی پختگی نہیں محض پانی، نرم لجلجی مٹی یا کوئی بے توازن سیڑھی، تو میں یقینا” دوسرا پاؤں دھرنے سے قبل بہت سوچتی۔ بہت سا حسابی عمل یا تجرباتی اندازے بروئے کار لاتی۔ سیدھا کھڑا ہونے کا یقین پیدا کرتے کرتے، جس کے بعد حرکت، بقاء اور ارتقاء کی منزلیں آتی ہیں، مجھے ایک عمر لگ جاتی۔ لیکن سفر ہے خیال کا، سوچ کا۔ جہاں ظاہری حقیقت محض ثانوی ہے اور مادی یقیں، دنیاوی دانائی، حسابی اندازے سب بےکار پھیلاوا۔ اپنی سوچوں کو آپ لاکھ سمجھانا چاہیں، نہیں سمجھا پائیں گے۔ یہ سوچیں زمین کی قسم جانے بغیر، مٹی کا تجزیہ کیے بنا، اپنا راستہ خود بناتی، بڑھتی چلی جاتیں ہیں۔

اپنی ذات کی بغاوت دیکھ کر، جاننے اور سمجھنے کے تھکا دینے والے عمل سے گزر کر یہ معلوم ہوا ہے کہ شاعری کا وارد ہونا، اور ایک مخصوص ہیئت میں وارد ہونا، لکھا جانا اور ابلاغ ہونا، سب بےحد داخلی ہوتے ہوئے بھی ایک خارجی عمل ہے۔ ہر چند کہ اس سارے عمل کو میں اپنی ذات کا اظہار کہ کر، اپنا لفظ یا وجود کہ کر اپنی انسانی انا کی تسکین کر سکتی ہوں۔ جملہ حقوق اپنے نام محفوظ رکھ سکتی ہوں۔ لیکن سچائی کے لمحوں میں اس ’خودغرضی‘ کا پردہ اٹھاؤں تو میرا اپنا ہی وجود ’میں‘ کے تمام دعوؤں سے دستبردار ہو جاتا ہے۔ ایسے میں میرا اپنا ہی اگلا کوئلہ مجھے جلا دیتا ہے۔ میرے اپنے لفظ مجھ سے اجنبی بن کر ملتےہیں اور میرے اپنے ہی خیالوں میں نامانوس چیزوں کا وہ پراسرار سحر جاگ اٹھتا ہے جو دلکش بھی ہے، خوفزدہ بھی کرتا ہے۔

یوں بھی ہے کہ حقیقت، جس کا تعین میرے حواس نے کیا تھا، سچائی جسے میری روح نے اک عذاب کے بعد ڈھونڈا تھا، خواب خواب موسم کی دھند میں کہیں کہیں سے مدھم ہو جاتی ہے۔ کہیں میرے میلے ہاتھ دھبے لگا دیتے ہیں، اور کہیں اوروں کے۔ کبھی میری دھندلی نگاہ ہی مجھے کچھ دیکھنے نہیں دیتی۔ اور وہ جنہیں نظروں کے جالے اتارنے، لفظوں کے دھبوں تلے چمکتی کڑیوں کو ملا کر حقیقت کے تصور کو پروان چڑھانے کا کام سونپا گیا ہے جانے کس کام میں لگے ہیں۔

خود میں نے ادراک کے سفر میں کئی بار خود کو کھویا ہے، بارہا تلاش کیا ہے۔ کبھی بے یقیں، کبھی بے حقیقت۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوا کہ آرزو اور سفر، راستے اور منزل کی بھول بھلیوں میں آگے بڑھتی ان کے حیطہء اثر سےہی نکل گئی۔ ختم ہو گئی۔ لیکن ہر مرتبہ ایک تشنگی، ایک بے چارگی ایک بے بضاعتی خود ہی مجھے زندگی میں دوبارہ کھینچ لائی۔ کہ اپنی تدفین یا اپنی تکمیل کا فن صرف میرے ہی ہاتھ میں دیا گیا ہے۔

دوسرے قدم کا سچ بہر حال ادھورا ہے۔ کیوں۔ معلوم نہیں۔ شائد ہاتھوں پہ لگے دھبوں کی وجہ سے۔ یا حقیقت کا ویژن دکھانے والی سکرین پہ چھائی دھند کی وجہ سے۔ یا شاعری کو خارجی نگاہ سے پرکھنے کی کمزور صلاحیت اس کی ذمہ دار ہو۔ تاہم بوجہ اخلاص میں اپنی کارگاہ فن کا سارا سامان اٹھا لائی ہوں کہ شائد اس میں کہیں وہ لفظ بھی ہوں جو علم لاءادری کی جانب لے جاتے ہیں۔

مجھے احساس ہے کہ میرا شمار ان خوش نصیبوں میں نہیں ہوتا جو خاموش مجاہدوں کے دوراں بہت رازداری سے قلزم حقیقت میں مدغم ہو جاتے ہیں۔ مجھے سوچ کے ریگزار پر پوری جان سے گھسٹنا پڑتا ہے۔ تاآنکہ کسی مقام پر منزل استقبال کو بڑھ آئے۔ اور کیا سچ نہیں کہ قرینہء سفر کتنا ہی مختلف ہو، پہنچنا سب کو ایک ہی منزل ہے۔ سچ کے تین ادوار کے بعد کی منزل۔ کامل خاموشی کے بعد کی منزل۔۔۔ جہاں آہنگ ہے، لفظ نہیں۔ خیال ہے، ہیئت نہیں۔ وہ منزل ابھی نہیں آئی۔

سو اب خواہ ہر قدم پہ سیڑھی پہلے سے زیادہ بے توازن ہو اور انتہا پر آگ خواہ میرے اپنے ہی ہاتھ سے ہویدا ہو، مجھے چلنا ہے۔ اب منزل کی تابندہ پیشانی نگاہ میں ہے۔ قدموں تلے راستہ سنورتا جا رہا ہے۔ وقت کی گنجائش سے پہلے مجھے بڑھتے جانا ہے کہ میری دنیا کی ریت ہے روشنی چاہے اپنے دل میں جگمگاتی ہو، قدم پہلے پہل، بہت دور خواہش کی انجان اندھیری دھرتی پہ اٹھانے پڑتے ہیں اور یہ سفر بہت مقدس سمجھا جاتا ہے۔

__________

سچ ادھورا ہے ابھی

رافعہ خان


کوئی تبصرے نہیں: