06 دسمبر 2012

کیا آپ بور ہورہے ہیں 3

اب اگر آپ کو یہ تو معلوم ہےکہ آپ کا دماغ کچھ بہتر اور نیا کرنا چاہ رہا ہے لیکن معلوم نہیں کہ موجودہ حالات میں ایسا کیا کیا جاسکتا ہے جس سے بوریت بھی دور ہو جائے، موٹیویشن بھی مل جائے ، نیا پن بھی اور کچھ سیکھنے کو بھی ملے اور مفید بھی ہو۔ ایسی کسی بھی مصروفیت یا مشغلہ کو فوری طور پر تو ڈھونڈ نکالنا ممکن نہیں لیکن ایسی کچھ مصروفیات ضرور ہیں جن سے دماغ کو مزید بوریت کی بجائے کچھ تحریک دی جاسکتی ہے۔ اس دوران نئے راستے سوجھ سکتے ہیں اور کوئی نہ کوئی ایسا آوٹ لیٹ مل سکتا ہے جو آپ کے ذہن سے حقیقی مطابقت رکھتا ہو۔

ایک جنرل لسٹ کچھ ایسے بنائی جا سکتی ہے

  • نئی کتاب۔آڈیوبک
  • فوٹوگرافی۔گرافک ڈیزائن
  • کنٹینر گارڈننگ
  • کرافٹ
  • کیلیگرافی
  • ابتدائی پروگرامنگ
  • بلاگنگ۔ 
  • میڈیٹیشن
  • فیورٹ موضوع پر ریسرچ
  • دور کےعزیزوں کی احوال پرسی
  • رضاکارانہ امداد
  • نئی ریسیپی کا تجربہ
آپکی لسٹ میں کیا نکات ہیں؟

نئی کتاب


نئی کتاب پڑھنے میں ویسے تو ہمیشہ لطف آتا ہے لیکن کچھ کوشش سے اس کو تھوڑا سا مختلف تجربہ بنایا جاسکتا ہے۔

  • دو یا دو سے زیادہ افراد مل کر ایک کتاب پڑھیں اور مرکزی کردار کے بارے میں اپنی رائے شئیر کریں
  • کتاب میں کچھ کمزور پہلو ڈھونڈیں اور ان کی بہتری کی تجویز سوچیں
  • کتاب کے مصنف کو کتاب کی تعریف اور کچھ اعتراضات کے بارے میں اپنی رائے سے آگاہ کرنے کی کوشش کریں : )۔
  • کتاب کے انجام کو پڑھے بغیر گیس کریں۔ یا اس سے اتفاق نہ کرتے ہوئے نیا انجام اپنے الفاظ میں لکھیں اور کتاب کے آخر میں چسپاں کردیں۔
  • کتاب کے مرکزی کرداروں کی جگہ تبدیل کردیں اور دیکھیں کہ وہ وہاں کیسے ردعمل ظاہر کریں گے۔

فوٹوگرافی


فوٹوگرافی ایک بہت پر لطف مشغلہ ہے۔ لیکن اس کو اگر ایک تھیم کے ساتھ کیا جائے تو اور بھی بہتر لگے گا۔ اس کے لیے کسی مشکل تھیم کی ضرورت نہیں۔ اور سیل فون کا یا نارمل ڈیجیٹل کیمرہ بھی کام دے سکتا ہے۔
کچھ آسان سی تھیمز ایسے ہو سکتی ہیں

  • ایک ہی جگہ کی مختلف اوقات اور مختلف روشنی میں ایک ماہ تک تصویر لینا
  • کلر تھیم کے ساتھ مقررہ تصاویر
  • ایک موضوع کے ساتھ تصاویر
  • ایک خیال کی تسلسل کے ساتھ تصاویر
  • تصاویر کو مختصر تحریر کے ساتھ آن لائن پوسٹ کرنا


بلاگنگ


بلاگنگ بہت تیزی کے ساتھ روائیتی انداز کے ویب سائیٹ کی جگہ لیتے جا رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بلاگز کا رائے عامہ میں حصہ مان کران کو کچھ اور بھی اہمیت دے دی گئی ہے لیکن اردو بلاگنگ کو دیکھا جائے تو موضوعات میں بہت زیادہ تنوع نہیں ملتا۔ ایسے لکھتا ہے اردو لکھاری یا اردو کا آں لائن قاری صرف سیاست، مذہب اور آئی ٹی کے مضامین ہی میں بنیادی دلچسپی رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ ادبیات کا شعبہ ایسا ہے جس میں سب سے زیادہ کام ہوا ہے۔ یعنی وافر مقدار میں شاعری ، افسانے اور ناول وغیرہ موجود ہیں۔ 

لیکن زبان کو پروان چڑھانے اور ترقی دینے کے لیے اس کا تعلق براہ راست زندگی سے ہونا ضروری تاکہ اس میں بھی زندگی باقی رہے۔ بہت سے ایسے پہلو ہیں جن کے بارے میں اردو میں آن لائن مواد اتنا زیادہ موجود نہیں۔ آئی ٹی کے علاوہ سائینس اور طب کے دوسرے پہلو، سائیکولوجی، معاشرتی پہلو وغیرہ کے بارے میں بہت کچھ دریافت ہو چکا ہے اور اس کو اردو میں بھی موجود ہونا چاہیے۔ اپنے روز مرہ کے عمومی شوق اور مشغلوں کے بارے میں سادہ ترین زبان میں ایسے موضوعاتی بلاگ شروع کیے جاسکتے ہیں جس سے اردو کا ذخیرہ معلومات بھی بڑھے گا اور ہماری مصروفیت کا سامان بھی ہو سکے گا

اس موضوع پر مزید کسی اگلی پوسٹ میں۔۔

01 نومبر 2012

کیا آپ بور ہورہے ہیں 2


یہاں میں روز مرہ کے روٹین کے کاموں کی بات نہیں کر رہی۔ اپنی ذمہ داریوں کو بوریت کی بھینٹ چڑھا کر ان سے پہلوتہی کرنا دماغی پوٹینشل کے عدم استعمال کی بجائے سستی اور بےکاری کا زائد استعمال ہے۔ لیکن پروفیشنل بوریت اس میں گنی جا سکتی ہے۔ یعنی اگر ہم کسی شعبہ میں کام کر رہے ہیں اور ہر روز کام کرتے ہوئے انتہا سے زیادہ بوریت یا موٹیویشن لیس محسوس کرتے ہیں

04 اکتوبر 2012

کیا آپ بور ہو رہے ہیں 1



کیا آپ بور ہو رہے ہیں؟ آپ پچھلے دو گھنٹے کے دوران "آپ کس رنگ کا کریون ہیں؟" قسم کے پرسنیلیٹی ٹسٹ لے لے کر اور ان کے رزلٹ فیس بک پر پبلش کر چکے ہیں۔ مختلف رسالوں کو الٹ پلٹ کر، کسی اچھی مووی کو تلاش کرکرکے، پرانی فیس بک البمز دیکھ کر اچھی طرح سے مایوس ہو چکے ہیں کہ دنیا میں کہیں بھی کچھ بھی نہیں ہو رہا اور اگر ہو رہا ہے تو آپ کے لیے بیکار ہے کیونکہ آپ اس کا حصہ نہیں ہیں۔ یا اگر کچھ ہو بھی رہا ہے تو بیکار ہے کیونکہ ہر چیز ویسے ہی بیکار ہے اورانتہا کی بوریت ہے۔۔۔ تو میرا خیال ہے آپ ایک انتہائی اہم ڈسکووری کر چکے ہیں۔

بور ہونا اصل میں ہمارے دماغ کا ایک سگنل ہوتا ہے کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں اس سے کہیں زیادہ اہم کام ہمارے واسطے کرنے کو موجود ہے۔ ہم اپنی کارکردگی سے نامطمعن ہیں، ہمارا دماغی پوٹینشل اس سے کہیں زیادہ ہے جتنا ہم اپنے روز مرہ کے کاموں میں صرف کر رہے ہیں۔ اصولاً ہم کو اس بوریت کے سگنل کو ٹریس آؤٹ کرکے دیکھنا چاہیے کہ ہمارا دماغ ہمیں کہاں لے جانا چاہ رہا ہے لیکن اس کے برعکس ہم بوریت کو بہلانا شروع کر دیتے ہیں۔ بیشتر اوقات ہم وقت گزاری کی کوئی ایسی مصروفیت شروع کر دیتے ہیں جو ہمارے پوٹینشل کی شدت سے کم تر ہوتی ہے۔ اس طرح دماغ مطمعن ہونے کی بجائے مزید بور اور آخر کار مایوس اور ڈپریسڈ ہو جاتا ہے۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم بوریت سے سمجھوتا کر لیتے ہیں جیسے لمبے سفر میں ہم ایک ہی میگزین کو بار بار پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں شائد اس بار کچھ نیا ہوگا۔

25 اپریل 2012

اقتباس


From:  Maktub

Paulo Coelho


Saint Anton was living in the desert when a young man approached him. "Father, I sold everything I owned, and gave the proceeds to the poor. I kept only a few things that could help me to survive out here. I would like you to show me the path to salvation." Saint Anton asked that the lad sell the few things that he had kept, and with the money buy some meat in the city. When he returned, he was to strap the meat to his body. The young man did as he was instructed. As he was returning, he was attacked by dogs and falcons who wanted the meat. "I'm back," said the young man, showing the father his wounded body and his tattered clothing. "Those who embark in a new direction and want to keep a bit of the old life, wind up lacerated by their own past," said the saint. 

11 اپریل 2012

سوال



پہلے قطرے کو اکثر جلتی تپتی خشک زمین ہی ملتی ہے۔ لیکن پہلا قطرہ کچی مٹی میں سوندھی مہک جگاتا ہے۔۔ پہلا قطرہ ہی موسم بدلنے کی نوید لاتا ہے۔ پہلا قطرہ باقی سب قطروں کا رہنما ہوتا ہے۔۔ وہ ان کا استاد ہوتا ہے۔۔

اب استاد نے تو اپنا کام کر دیا۔۔ غیروں کے پھینکے پتھروں اور اپنوں کے پھینکے پھولوں سے اتنا تو کھل ہی گیا کہ سوال جتنا بھی سادہ ہو گنتی میں آتا ہے۔ اور گننے والے جانتے ہیں ایک سوال کرنے والا اگر صرف ایک ہو تو اس سے نمٹنا آسان، ایک ہزار ہو تو ممکن، ایک لاکھ ہو تو شائد مشکل اور ایک کروڑ سے بڑھ جائے تو ناممکن ہو جایا کرتا ہے۔ سو سوالوں کا دور عموما جواب ملنے تک چلا کرتا ہے

پر ہم کہاں اتنے کھرے کہ دوسری یمنی چادر، تیسرے بدیسی محل یا چوتھے سوئس اکاونٹ تک جا پہنچیں۔ ہم تو استاد کے طریقے پہ آسان سا سوال پوچھ لیتے ہیں۔

سوال:
پاکستان کے موجودہ آئین کے تحت کن اداروں/افراد کی قانون پر بالادستی تسلیم کی گئی ہے

سیاسی آمر
پشتینی حکمران
مسلح سیاح
انتظامی ادارے
عوام
میڈیا

روکنے والوں کو علم ہی ہے موجودہ دور کا سوشل میڈیا سوالوں کی جو بارش کو برسا سکتا ہے اسے روکنا مشکل ہے۔۔ اور کچی مٹی تو مہکے گی۔۔


سو استاد کے بقول : سوال کر کے جیو

20 مارچ 2012

سگنیچر اٹیک



فورم پر آتے ہی طرح طرح کے سگنیچر استقبال کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ازمنہ اولٰی میں، جب ہمیں معلوم نہ تھا کہ ہم چاہیں تو انہیں دیکھیں اور چاہیں تو نہ دیکھیں۔۔ ہم انہیں بار بار دیکھتے۔۔ اور ایک ایک سگنیچر پر کئی کئی انچ کا پڑاو کرتے۔ پوسٹ کے درمیان سگنیچر کی بجائے سگنیچر کے بیچ پوسٹ ڈھونڈنی پڑتی اور ایک پوسٹ سے دوسری پوسٹ تک جاتے جاتے دانش میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا۔ اور پھر بار بار ہوتا ہی چلا جاتا۔ انٹرنیٹ کی دنیا میں پوسٹوں کو پڑھے بغیر جواب دینے کا رواج شائد انہیں سگنیچر کی وجہ سے ہے۔ نگاہوں کو خیرہ کردینے والی چمک دمک اور دانش ان کے اوپر دبی موہوم سی پوسٹ پر نگاہ ٹہرنے ہی نہیں دیتی اور لوگ متفق الیہہ سے کام وام چلا لیا کرتے۔

01 مارچ 2012

بڑی تصویر کی چھوٹی تفصیلات



ہم کرہ ارض کے بے شمار ملکوں میں سے عمومی رقبے کے ایک ملک کی ایک منتشر سی قوم ہیں۔ لیکن ہم بڑے ہی سیاسی لوگ اور مذہبی لوگ ہیں۔ کسی نے ایک دفعہ ہمیں بتایا تھا۔ جدا دین سے سیاست ہو تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔۔ اب گو ہمیں چنگیزی اتنی بری نہیں لگتی۔۔ چنگیز خان کے نام کے ساتھ خان لگتا ہے اور بہت سے ہر دلعزیز خان قومی افق پر چھائے رہے ہیں۔۔ ہمیں پسند رہے ہیں۔ پھر چنگیز خان نے ہمیں تیمور لنگ جیسا جی دارو دیندار سیاست دان بھی دیا۔۔ جس کے بارے میں بعد میں ہمیں بتایا گیا۔۔ مل گیا پاسبان کعبہ کو بت خانے سے۔۔ وہ سب ہم مانتے ہیں۔ لیکن دین کو سیاست سے الگ نہیں کرتے بالکل۔ اپنا دینی چینل کھولتے ہیں، سنتے ہیں۔۔ سر دھنے ہیں، پھر اپنا سیاسی خبروں کا چینل کھولتے ہیں۔۔ اپنے پسندیدہ ٹاک شو کے ہاتھوں کی گئی سر پھٹول دیکھتے ہیں۔ اور جب دماغ منتشر اور آنکھیں بھاری ہو جاتی ہیں توکچھ ہلکا پھلکا دیکھ لیتے ہیں۔

لیکن ہم ہمیشہ بڑی تصویر نظر میں رکھتے ہیں۔ دنیا کے چیدہ چنیدہ واقعات پر ہماری نظر رہتی ہے۔ ملک کے اہم سیاسی معاملات، معاشی اتار چڑھاؤ، فوجی غلطیوں کا کل اور آج ہمیں بہت اچھے طریقے سے یاد ہے۔ ہمیں بخوبی ادراک ہے کہ ہم ایک بہت اہم ملک ہیں۔ جس کا کام ہر سپر پاور کو۔۔ جن کو ہم ہی جیسے ملکوں نے سپر پاور کا نام دیا ہے۔۔ اپنی شمشیر کے بل پر پاس پھٹکنے سے روکنا ہے۔۔ ہماری انسپیریشن تو سب کو معلوم ہی ہے۔۔ یعنی بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑا چکے ہیں۔ بڑے بڑے معاملات پر مسلسل غور کرتے رہنے کی وجہ سے ہم ہائیپراوپیا کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔

ہائیپراوپیا یا فارسائیٹڈنیس طبی زبان میں نظر کی ایسی حالت کو کہا جاتا ہے جس میں قریب کی چیزیں واضح نہیں دکھتیں۔ سماجی زبان میں اسے ویژن کی اسی کمی سے منسوب کیا جا سکتا ہے جس میں ہمیں ایک دوسرے ملک میں ہوتے ہوئے کرکٹ میچ کی تفصیلات کا پورا علم ہوتا ہے لیکن یہ نہیں معلوم ہوتا کہ تین روز سے مسلسل ہونے والی دہشت گردی کے نتیجے میں ہونے والی مارکیٹ ہڑتال کی وجہ سے ہمارے ہمسائے کے پاس کل سے کھانے کا راشن ختم ہو چکا ہے۔ یا کچھ ایسے کہ ہم جانتے ہیں پاک چائینا کے اشتراک سے بننے والے نئے طیارے میں کون کون سی خوبیاں ہیں لیکن ہماری گلی میں چھوٹا سا گندے پانی کا جوہڑ ہمیں نظر نہیں آتا جس پر بھنبھناتی مکھیاں اور مچھر طرح طرح کی بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں۔ یا پھر یہ کہ کن سیاست دانوں کی ڈگریاں اصلی ہیں اور کن کی نقلی، لیکن بچوں کے سکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ کو کوئی مدد درکار ہے ہمیں معلوم نہ ہو سکے۔

یہ تو نہیں کہ سکتے کہ سماجی طور پر ہم ایک بے شعور قوم ہیں یا یہ کہ ہم سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ہم ایسے نہیں ہیں کہ ہم نے دنیا دیکھی ہے۔ کیسی کیسی قومیں ہم نے دیکھی ہیں۔۔ سارا سارا دن سونے والی افیونی قومیں۔ ہر اصول کو بالائے طاق رکھ کر آزادیٔ ذات کا نعرہ لگانے والی ہپی قومیں، یا انسانوں کو شودر گردان کر زندگی کا حق نہ دینے والی تنگ نظر قومیں، یا عربی و عجمی کی تفریق کرنے والی گھمنڈی قومیں، یا طاقت کے نشے میں دوسروں کو زندہ نہ رہنے دینے والی متعصب قومیں۔ ہم ایسی قوموں میں شمار نہیں ہوتے۔ ہم شب بیدار، دیندار، روادار، مساوت پسند، عجز کو زندگی ماننے والی رحمدل، بہادر اور اصول پسند قوم ہیں۔ ہاں ایک چھوٹا سا مسئلہ ہو گیا ہے۔۔ ہم بڑے بڑے میورلز کو پرکھتے پرکھتے چھوٹی تفصیلات کو نظرانداز کرنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ ہمیں اپنے ارد گرد کیا غلط ہے نظر نہیں آتا۔ اور اس صرفِ نظر نے ہمارے مسائل کی چھوٹی چھوٹی تفصیلات کو ایسا سیلاب بنا دیا کہ پوری قوم ہی اس میں بہ جانے کو ہے۔

ان تمام چھوٹی تفصیلات پر جن پر بڑے بڑے آرٹیکل نہیں چھپتے، ٹاک شوز نہیں بنتے اور دعوتوں میں گرما گرم بحث نہیں ہوتی، فردا فردا بیان کیا جائے تو ایک لمبا عرصہ درکار ہوگا۔ لیکن یہاں پڑھنے والے محض چند سو افراد ان باتوں پر سوچنا شروع کر دیں اور ان کو حل کرنے کا راستہ ڈھونڈ لیں تو ایک بڑی تبدیلی کا آغاز ممکن ہے۔ یہ مسائل ہماری روز مرہ زندگی میں صفائی ستھرائی، تعلیم کی حقیقی ترویج، امداد باہمی، وقت کی قدر اور سچائی سے ہی متعلق ہیں۔

بظاہر ہمارے بہت قریب موجود ان چھوٹے مسائل کو غور سے دیکھنے پر ان کا حل ناممکن لگتا ہے۔ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری حکومت نااہل ہے، اور ہمارے سیاستدان اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں۔ اور دوسرے انتظامی ادارے اپنا کام ایمانداری سے نہیں کررہے۔ چلیں پھر بات یہیں سے شروع کرتے ہیں کہ ہم بدتر حالات کے آخری درجے پر ہیں۔ اور ہم نے اپنی بہتری کی ذمہ داری چند اشخاص کے سپرد کی تھی جو اس پر کام نہیں کر پا رہے۔ تو ایک چھوٹا سا سوال اٹھتا ہے۔ یعنی ایک شخص نے دوسرے سے کہا میں ڈوبنے لگوں تو تم مجھے بچا لینا۔ اور وقت آنے پر دوسرا شخص اس کو نہیں بچاتا تو پہلا شخص کیا کرے گا؟؟ کیا وہ آنکھیں بند کرکے ڈوبتا جائے گا؟؟ اور اگر وہ نہ ڈوبے اور کسی نہ کسی طرح بچ جائے تو کب تک وہ اسی دوسرے پر اپنے بچاؤ کے لیے انحصار کرے گا۔ جب زندگی پر داؤ لگ رہا ہو تو یہ جوا بار بار نہیں کھیلا جاتا کیونکہ انسانی سرشت میں سروائیول کی، خطرے سے لڑنے کی ایک فطری حِس رکھی گئی ہے۔ جس کا تعلق نسل انسانی کی بہتری سے بنایا گیا ہے۔

پتھر کے زمانے سے یہی حِس انسان کو اپنی حالت بہتر بنانے پر مجبور کرتی رہی ہے۔ انسان نے جب پہلی پہلی بستیاں بنائی تھیں تو ٹیم ورک وجود میں آیا تھا۔ وہی ٹیم ورک اب ایک محلے، ایک گلی، ایک شہر، ایک ملک میں کام آسکتا ہے۔ ہمارے ان چھوٹے مسائل کا حل ہماری مشترکہ کوششوں میں ہے جہاں ہم کسی بھی ان ریلائیبل شخص یا ادارے پر انحصار چھوڑ کر اختیار اپنے ہاتھوں میں لے لیں۔

ہم خود وقت کی پابندی شروع کرسکتے ہیں، وقت کی قدر میں اضافے سے ہمارے پاس بہت سا وقت بچ جائے گا جسے تعمیری سرگرمیوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے

ہم خود اپنے محلے کو صاف رکھنے کا صفائی چارٹ بنا سکتے ہیں۔ سڑک ٹوٹنے یا لائیٹس خراب ہونے کی صورت میں پیسے جمع کرکے اسے خود ٹھیک کر سکتے ہیں۔

روزگار کے لیے ایک دوسرے کو اپنی کمپنیوں میں مواقع دے سکتے ہیں۔ شادیوں کے لیے انسانی سیرت کو معیار بناسکتے ہیں۔ ان کے انعقاد کے لیے ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں

ہم اپنے فارغ اوقات میں اپنے بچوں کے سکول میں رضاکار امداد دے سکتے ہیں۔ تاکہ اساتذہ پر کام کا بوجھ کم ہو اور وہ بہتر طریقے سے اپنے فرائض ادا کرسکیں۔

ہم مقامی ٹیمز بنا کر بچوں کے کھیلنے کے لیے جگہیں اور دوسرے وسائل مہیا کر سکتے ہیں۔

ہم کار پول کرکے ایک ہی کار میں ایک سے زیادہ افراد مختلف جگہوں پر جا سکتے ہیں جس سے ٹریفک کا رش کم اور وسائل کی بچت ہو

ہم بیماریوں کی روک تھام کے لیے خود ڈاکٹرز سے رابطہ کرکے کیمپ ارینج کر سکتے ہیں۔

ہم مقامی سکولوں کو ترویج دے کر اچھا سکول بنا سکتے ہیں۔ مل جل کر ان میں ضرورت کی چیزیں مہیا کر سکتے ہیں اور بڑے سکولوں کی بڑی فیسوں کی حوصلہ شکنی کر سکتے ہیں۔

جن لوگوں کے پاس جنریٹر یا متبادل بجلی کی سہولت مہیا نہیں ان کے لیے یہ سہولت مل جل کر خرید سکتے ہیں

مقامی وسائل جمع کر کے مہنگے وسائل زندگی خرید کر ارزاں قیمت پر فروخت کر سکتے ہیں۔ تاکہ کوئی شخص بھوکا نہ سوئے۔ کسی کی زندگی رائگاں نہ ہو۔

پہلے چھوٹے لیول پر ارگنائز ہوکر ہم چھوٹی تبدیلیاں لا سکتے ہیں اور پھر بڑی تبدیلوں کے لیے لڑ سکتے ہیں۔ تبھی ہم بہتر کے لیے بارگین کر سکتے ہیں۔

ان چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے کسی حکومت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ان کے لیے صرف ایک تعمیری جذبے کی ضرورت ہوتی ہے۔ احسان اور رواداری کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنی دو روٹی کو مل بانٹ کر کھانے، کھلے میں چٹائی ڈال کر علم بانٹنے اور سیکھنے، صفائی کو نصف ایمان سمجھنے اور صرف خدا پر توکل کرنے کا جذبہ جب بھی بیدار ہوتا ہے محض مٹھی بھر منظم لوگ دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کی داغ بیل ڈالتے ہیں۔ پھر وہ لوگ کبھی نہیں ہارتے۔ اور ہاں۔ وہ بحر ظلمات میں گھوڑے بھی دوڑا دیتے ہیں لیکن اب ویسے سب میرین کا دور ہے۔

06 فروری 2012

کھیل تہذیب (سولائزیشن)۔



کمپیوٹر گیمنگ کے شائقین سولائزیشن کے نام سے بخوبی واقف ہوں گے۔ نقاد دو عشرے سے سٹریٹیجک گیمز کے زمرے میں اسے متفقہ طور پر سب سے زیادہ کھیلی جانے والی۔۔ یا سب سے زیادہ بکنے والی گیم قرار دیتے ہیں۔ چار ہزار قبل مسیح سے موجودہ دور تک کی تہذیب کو ہماری انگلیوں کی جنبش پر لا گرانے والا تہذیب کا یہ کھیل ہر کھیلنے والے کو اپنے وسیع کینوس، لا محدود امکانات اور مستند حوالوں سے موہ لیتا ہے۔

16 جنوری 2012

سے نو ٹو لائیبریری۔



دسمبر کی اس کہر بھری صبح مجھے آتش فشانی منصوبہ (ہمم۔ پروجیکٹ وولکینو)کی یاد دہانی کرائی گئی۔ گرم گرم چائے کی اٹھتی بھاپ کے پیچھے سے جھانکتے میرے چہرے پر موجود سستی اور سردی کے تاثرات کی حقیقت سے پرانی واقفیت رکھنے کی وجہ سے اس نے خاموشی سے بیڈروم میں جاکر گہری نیند سوتے باپ سے ماہر ہیپناٹائزر کی طرح سکول آنے کا پکا وعدہ لے لیا۔ آہ۔ ان خاموش منصوبہ بندیوں سے مجھے کتنی چڑ ہے۔

احسن کی چھٹی تھی۔ جس کو سکول کی بجائے شاپنگ میں گزارنا زیادہ دلچسپ ہوتا مگر بہرحال۔ چھوٹی کا سکول دیر سے شروع ہوتا ہے۔ سو ہم دونوں (ہم تینوں! ) آتش فشاں پہاڑیاں بنانے کے لیے سکول پہنچ گئے۔ قریبا بیس بچوں کی اس کلاس میں ہمارے اور ایک استانی کے علاوہ پانچ والدین اور بھی موجود تھے جو ذوق شوق سے اخبار کے ٹکرے لئی میں ڈبو ڈبو کر سوڈے کی پلاسٹک بوتل پر چپکاتے بچوں کو اسسٹ کر رہے تھے۔ یعنی ادھر ادھر اڑتے میدے کے چھینٹے صاف کرنا اور لئی سے پیالوں کو دوبارہ بھرنا اور "اوہ سو کیوٹ" کہ کر بیچ بیچ میں فوٹو لیتے جانا۔۔ بننے کے بعد ان پہاڑیوں کو سوکھنا تھا۔ اور پھر ان پر پینٹ ہونا تھا۔ پھر ان میں بیکنگ سوڈا اور صابن وغیرہ بھرا جانا تھا۔ اور پھر آتش فشان پھٹنا تھا۔ لیکن وہ بعد میں ہوگا۔ چھوٹی سارا وقت کونے میں کھڑی ہوکر بڑی جماعت کے بچوں کو گھورتی رہی۔

پارکنگ میں داخل ہونے سے پہلے دونوں اطراف پر کھڑے لوگوں نے ہاتھ ہلا ہلا کر ہمارا استقبال کیا تھا۔ ہم نے مسکراتے ہوئے سر کے اشارے سے ان کا شکریہ ادا کیا۔ اور ہاتھ ہلا کر ہاٹ چاکلیٹ کو منع کیا۔ ہاں۔۔ میں بتانا بھول گئی اس روز قصبے میں سپیشل الیکشن تھا۔ ووٹنگ کے لیے اس سکول کا انتخاب کیا گیا تھا کہ باقی چاروں کی نسبت زیادہ وسط میں تھا اورپارکنگ بڑی تھی۔ حمایت کنندگان سخت سردی میں "سے یس" یا "سے نو" کے بورڈ پکڑے کھڑے تھے۔ ایک عمومی نظر کے جائزے سے ایک گروہ دوسرے سے عمر اور تجربے میں زیادہ دکھ رہا تھا اور جوش اور جذبے میں کم۔ لیکن تجربہ جوش سے جیت گیا۔ لائیبریری کی اس سال توسیع کا منصوبہ دوگنی اکثریت سے رد کردیا گیا۔

میں ووٹ نہیں دیتی۔ کیونکہ سب سے پہلے تو میں یہاں رہتی نہیں۔ نہیں میرا مطلب ہے میں یہاں رہتی تو ہوں لیکن یہاں کی شہری نہیں۔ نہیں میں یہاں کی شہری تو ہوں مگر میں پاکستانی ہوں۔ افوہ۔ میرا مطلب ہے۔۔ بہرحال۔۔ احسن کا خیال ہے کہ کل تنخواہ کا تیس فیصد ٹیکس میں دینے کے بعد انتظامیہ کا فرض بنتا ہے کہ ہر کام سے پہلے وہ ہماری رائے پوچھے اور اس کا احترام کرے۔ چاہے وہ چھ ملین جیسی قلیل رقم سے متعلق ہو۔ ایسے ہی قصبے کے باقی لوگوں کا خیال بھی ہے۔ اوران کا خیال یہ بھی ہے کہ اتنی خراب اکانومی میں کتاب کی عیاشیوں کے لیے قوم کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اور ہزار پر پچیس سینٹ کے حساب سے پراپرٹی ٹیکس کا اضافہ ٹھیک ٹھاک اضافہ ہوتا ہے۔ (سالانہ اسی ڈالر کے قریب !!!) کتاب کی عیاشی کے خاتمے ہی کی وجہ سے پچھلے سال قریبی کتاب کی دوکان بڑھا دی گئی۔ لوگ آجکل بہت سینت سینت کر خرچ کررہے ہیں۔

اور لائیبریری تو پہلے ہی اچھی خاصی ہے۔ موجودہ حالت میں بھی چھ ہزار افراد کی کتابی ضروریات پوری کرنے کی اہل ہے۔۔ اور اگر مطلوبہ کتاب نہ ہو تو آس پاس کی دس لائیبریریوں سے رابطہ کرکے منگوا دیتی ہے۔۔ لیکن پھر بھی اچھی اور بڑی لائیبریری کا مطلب ہے زیادہ کتابیں، اچھے سکول۔ ہاوس مارکیٹ اپ۔ زیادہ پراپرٹی ٹیکس اور قصبے کی ترقی۔ لیکن محصول دہندگان نے مزید ٹیکس کے خلاف رائے دی۔ قصبے میں سالوں سے رہنے والوں کی تنخواہیں ایک مقررہ مقام پر رکی ہوئی ہیں۔ ان کے خرچ طے شدہ ہیں اور اس میں اضافہ ان کی مشکلات میں اضافہ کر سکتا ہے۔ کم ٹیکس، زیادہ لوگ پھر زیادہ پراپرٹی ٹیکس اور قصبے کی ترقی۔

لیکن آپ سمجھ ہی چکے ہوں گے کہ قصبے کی ترقی میرا موضوع نہیں ہے۔ میں تو اس انتظامیہ کی تعریف میں رطب اللسان ہوں جو ہر کام اپنے شہریوں سے پوچھ کر کرتی ہے۔ ان کے پیسے پوچھ پوچھ کر خرچ کرتی ہے۔ مزید پیسے مانگنے سے پہلے بھی پوچھتی ہے۔ کیا اس کی وجہ سردی گرمی کی پرواہ کیے بغیر باہر نکل کر اپنے دیے ہوئے ایک ایک سینٹ کے استعمال سے آگہی اور احتساب کی ہمت رکھنے والے شہری ہیں یا اتفاقاً کچھ ایماندار لوگ منتخب ہوکر بڑے عہدوں پر آگئے ہیں؟؟