ہم نے پہلے بھی بتایا تھا خانہ جنگی والا انقلاب ہمیں اچھا نہیں لگتا لیکن چیرمین کی سادگی سے دنیا کو ہمیشہ بہت امیدیں رہی ہیں۔ اور ہے بھی ایسا ہی۔ آدھی رات کو کوئی ایک ڈائری اٹھا کر اکیلا چلا آئے تو کسی بھی سادہ لوح کا دل دکھ جاتا ہے۔ پھر موسم، مسافت اور موسیقی کے اپنے اثرات ہوتے ہیں۔ ہجوم کا ہیجان بتدریج زور پکڑتا ہے۔ پھر عقل والوں کو غیر محسوس طریقے سے پس منظر کر دیا جاتا ہے۔۔ پیش منظر میں کچھ اور چلا دیا جاتا ہے۔۔
یہ تو ہمیں معلوم ہے آئین قانون کی اور قانون آئین کی حفاظت پر مامور ہے اور دونوں کو ڈاکوؤں نے اغوا کر لیا ہے۔لیکن کب تک نا منظور ری۔پلے کر کے امر بالمعروف اور جھنڈے لہرا کر، نعرے لگا کر جہاد کرنا صحیح ہے۔؟؟ اس سے بہتر تو یہ تھا کہ بڑے مجرموں کو سزا نہیں ملتی تو ایک لاکھ چھوٹے مجرموں کو رہا کروا لیتے۔ سب کے لیے ایک قانون ہوجاتا، ہم اپنی مقصود فلاحی ریاست کے ایک قدم قریب تو ہو جاتے۔ یا پھر ملک کی ہر کورٹ میں ہر روز بڑھتی ہوئی قومی زیادتیوں اور غیر آئینی حکومت کے خلاف لاکھوں مقدمات درج کراواتے جاتے۔ جب تک حکومتی اور عوامی ادارے ہار نہ مان لیں۔ ورنہ قانون کو اس سے زیادہ تو آپ سمجھ نہیں پائے اور آئین ویسے ہی آپکی پہنچ سے دور ہے۔
ہجوم کا خون گرمئ جوش اور موسم کی گرمی سے ابل رہا ہے۔ اور یہ ہنستے، بستے زندہ لوگوں کا خون ہے۔ اور ان کی سماعتیں متاثر ہیں۔ اب مزید سچائی اور انصاف کے نفاذ کو اقتدار کے حصول سے مشروط نہ کریں۔ حقیقی آزادی کو سب سے دوستی کا نام مت دیں۔ کامیابی کے راستے کو سیاسی نعروں سے گرد آلود نہ کریں۔ لوگ آپکے پیچھے اس امید پر چل رہے ہیں کہ شائد آپکے پاس کوئی ویژن ہے۔ براہ کرم اپنے فولورز کو آنکھوں سے کالی پٹیاں اتارنے کی اجازت دیں۔۔ تاکہ وہ جان لیں کہ راستہ وہ خود بھی دیکھ سکتے ہیں ۔راہبر بھٹک بھی سکتے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں