19 اپریل 2022

الہ دین کے چراغ کا جن


واقعات اور حالات ہمیشہ ویسے نہیں رہتے جیسے ہم سوچتے ہیں کہ رہیں گے۔ جانی پہچانی کہانیاں بھی ایک مختلف رخ اختیار کر سکتی ہیں۔ دراصل کہانیوں کو مختلف رخ سے سوچنا بھی ایک لحاظ سے ہمیں ہر طرح کے حالات سے گزرنے میں مدد دیتا ہے۔ مثلا کیا ہو اگر الہ دین کی زندگی اتنی نہ ہو جتنی عموما ہوتی ہے جن ابھی ابھی چراغ سے باہر نکلا ہو اور کیا حکم ہے میرے آقا ہی کہ پایا ہو۔چراغ کہیں ادھر ادھر لڑھک گیا ہو۔

 کسی بھی نئے مالک کی غیر موجودگی سے گھبرا کر جن وہیں آہ وزاری شروع کردے۔۔کہ اب کیا ہوگا.؟اگر جن کو بتایا جائے کہ اسے حق خود ارادیت حاصل ہے۔ لیکن جن کو یہ معلوم نہ ہو کہ حق خود ارادیت دراصل خود ارادیت کا متقاضی ہے۔ اور خود ارادیت کے لیے ایک خود اور ایک ارادہ درکار ہے۔ جن کو اب جاننے اور سمجھنے کے بہت سے مراحل سے گزرنا پڑے گا۔۔ اب جبکہ وہ چراغ سے باہر آچکا ہے اور آزاد ہے۔

ملگرام کے تجربے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ایک مضبوط ارادہ اور مضبوظ خود کی غیر موجودگی کسی بھی انسان پر کمزور سے کمزور اصول یا وجود کو بھی مسلط کیا جا سکتا ہے۔ اتھارٹی ہمیشہ کسی ایک کی طاقت کا مظہر نہیں ہوتی۔۔ کبھی کبھی یہ کسی دوسرے کی ناطاقتی کی دلیل بھی ہوتی ہے۔ چراغ سے نکلے ہوئے جن پر پرانے وقتوں میں شائد چراغ رگڑنے والے کی احسان شناسی اور بیدار ضمیری کا بڑا بوجھ ہوتا ہوگا۔ لیکن اب زمانہ بدل چکا ہے۔ ویسے بھی اگر جن کو اپنی طاقت و حالت کا ادراک ہوتا تو اسے معلوم ہوتا کہ درحقیت اس کے ذمہ کچھ بھی واجب الادا نہیں ہے۔ وہ پہلے ہی اپنی طاقت و قوت میں سے بہت کچھ دے چکا ہے۔  وہ آج ہمیشہ سے کہیں زیادہ آزاد ہے۔

پیارے جن۔۔ وقت سب سے بڑا استاد ہے۔ اورتم جلد ہی جان لو گے۔  لیکن کاش تم ابھی جان پاتے کہ تمہیں کسی سے کچھ نہیں چاہیے۔۔ نہ حکم نہ حاکمیت۔ ہر شے جو تمہارے وجود و کامیابی کے لیے ضروری ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھ میں موجود ہے۔ تمہارے پاس سورج ہوا پانی۔ آسمان،، زمین ۔ دماغ، طاقت، بصیرت ہدایت ، کتاب، ہتھیار۔۔۔ سبھی کچھ موجود ہے۔ تم جسے چاہو اپنا حکمران بناوؐ اور اسے جہاں چاہو تخت و تاج دو۔۔ تمہیں  خود ارادیت کے اظہار کے لیے ردی کاغذ کے ٹکروں کی ضرورت ہے نہ کسی کمرے کرسی کی۔ کچھ لوگ اس کو ریفرینڈم کہتے ہیں۔بس یاد رکھو کہ آزادی کو کبھی مانگا نہیں جاتا۔ آزادی کو ڈکلیر کیا جاتا ہے۔
 

کوئی تبصرے نہیں: