۔"تاریخِ فردا" ایک نیا انقلابی پیرائہ خیال ہے۔ کیونکہ تاریخ کو ہم ہمیشہ سے ماضی کا عکاس سمجھتے رہے ہیں۔ لیکن آج کی دنیا شائد اس بات کا ادراک کر چکی ہے کہ انسان کو اپنے ماضی ہی کی نہیں فردا کی تاریخ بھی لکھنی ہوتی ہے۔ اس خیال کو پہلے سمجھ لیا جاتا تو تاریخ بھی ایک حقیقی سائنس کے طور پر لی جاتی۔ لیکن اس کی قدر تبھی بڑھے گی اور ماضی کے انسان کا مطالعہ محض تبھی سود مند ہوگا اگر ہم اس سے اپنے آج اور کل کو سمجھنے میں مدد لے سکیں۔ ہرتہذیب اور معاشرے میں تاریخ ماضی کو افراد کی بجائے ادوار کے حوالے سے بیان کرتی ہے۔ گو ان ادوار میں انسانوں کے خیالات اور میلانات ہی اس دور کی خاص ہیئت کی توجیہ ہوتے ہیں لیکن اس دور کی مفرد خصوصیات اور مقاصد ہوتے ہیں جو اسے سابقہ ادوار سے ممتاز کرتے ہیں۔
سو اگر ہر دور کو ایک مخروط تصور کرلیا جائے تو اس تصور کی بنیاد ہر کسی بھی معاشرے کا بغور جائزہ لینے سے مستقبل کی پیش گوئی ممکن ہے۔ مخروط یا کون کا نچلا حصہ پھیلا ہوا ہوتا ہے اور بالائی تکون بتدریج کم ہوتی جاتی ہے۔ ہر معاشرے میں عام افراد کون کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور مفکر، علما، شعرا و ادباء اور فلسفیوں کا گروہ اس کا بلائی حصہ تشکیل دیتے ہیں۔ اس طرح معاشرہ کسی ایک عضو یا جسم یا فرد کی بجائے ایک خیال کے گرد گھومتا ہے۔ اور یہ بات انتہائی سادہ اور ابتدائی معاشروں سے لے کر آج تک ہر زمانے پر صادق آتی ہے۔ ابتدائی دور کے سفید ریش بزرگ اور وچ ڈاکٹرز کا گروہ ایسے ہی دانشور سمجھے جاسکتے ہیں جو اپنے معاشرے کی راہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے رہے ہیں۔ اور یہی آج کے دور میں ہے( یعنی فوکس گروپ، تحقیقاتی ادارے اور نظریاتی بنیاد وغیرہ)۔
لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ بنیادی طبقوں اور دانشوروں کے ان گروہوں کے درمیان کوئی آڑ یا بندش نہیں ہے۔ لوگ بنیادی درجے سے کون کے اوپری حصہ تک ترقی پا سکتے ہیں اسی طرح دانشور عوام میں گھل مل سکتے ہیں۔ اس طرح ہر نئے دور کا عوامی حصہ پچھلے دور کے دانشور حصے سے وجود میں آتا ہے ان سے آگے ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر دور کے مفکر خیالات کو درجہ بدرجہ ترقی دیتے ہیں یہی خیالات، سائنس اور معاشرے کی ترقی ہوتی ہے۔ اگر مخروط کی بالائی سطح پر خاطر خواہ دانشور موجود نہ ہوں تو معاشرے میں عام آدمی کی سوچ میں تبدیلی کا عمل بھی خاطر خواہ نہیں ہوتا اور وہ اپنے پرانے اعتقادات اور خیالات سے آگے نہیں بڑھتے جب تک رفتہ رفتہ نئے خیالات معاشرے میں پنپنا شروع ہو جائیں۔اس طرح کبھی کبھی تہذیبیں ماضی کے ادوار کے دانشوروں کے قلیل گروہوں کی تلقید میں بنتی نظر آتی ہیں۔
ہر دور میں مخروط کی انتہا پر ایسے نابغہ خیال موجود ہوتے ہیں جو حال کی دانشور کلاس سے اختلاف رکھتے ہیں، ان سے علیحدہ خیالات کے مالک ہوتے ہیں اور ان سے ہٹ کر سوچ سکتے ہیں۔ یہاں سے معاشروں میں کشمکش شروع ہوتی ہے۔ یہ لوگ گو بہت کم ہوتے ہیں لیکن ان کے خیالات اور نظریات میں تبدیلی کی خو ہوتی ہے۔ اس تبدیلی کی نفوذ پذیری کی رفتار آہستہ ہو تی ہے لیکن بلاشبہ یہ مستقبل کی تہذیب یا معاشرے کے دانشوروں کا پہلا دستہ ہوتا ہے یہ مستقبل کی تاریخ کے لکھاری ہوتے ہیں جن کے ادراک اور تصورات پر مستقبل کا انسان پروان چڑھتا ہے۔
۔
۔ " نگاہی بہ تاریخ فردا"۔ ڈاکٹر علی شریعتی سے ماخوذ و تلخیص شدہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں