چشم نم، جانِ شوریدہ کافی نہیں
تہمتِ عشقِ پوشیدہ کافی نہیں
آج بازار میں پابجولاں چلو
دست افشاں چلو، مست و رقصاں چلو
خاک برسر چلو، خوں بداماں چلو
راہ تکتا ہے سب شہر جاناں چلو
حاکمِ شہر بھی، مجمعِ عام بھی
تیر الزام بھی، سنگِ دشنام بھی
صبح ناشاد بھی، روزِ ناکام بھی
ان کا دم ساز اپنے سوا کون ہے
شہر جاناں میں اب باصِفا کون ہے
دستِ قاتل کے شایاں رہا کون ہے
رختِ دل باندھ لو دل فگارو چلو
پھر ہمیں قتل ہو آئیں یارو چلو
۔
فیض احمد فیض
لامور
فروری۔۱۱۔۱۹۵۹
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں