مجھے کتابیں اچھی لگتی ہیں۔ ان کو پڑھنا اور ان کو لکھنا۔ مجھے لگتا ہے دنیا میں اگر کوئی کرنے کا کام ہے۔ تو یہی ہے۔ لیکن افسوس کہ میں اس میں ذرا بھی ماہر نہیں ہوں۔ نہ پڑھنے میں نہ سمجھنے میں اور لکھنے میں تو بالکل نہیں۔
لیکن ایک کتاب ایسی ہے کہ جس کو پڑھ کر میرا شدت سے جی چاہتا ہے۔ کاش مجھے صرف یہ ایک کتاب پڑھائی جاتی۔ کاش میں اسکو سمجھتی اس کا علم پاتی اور پھر کچھ ایسا لکھتی جو کتاب کہلاتا۔
یوں سمجھو کہ اگر میں ایک داستان گو ہوتی ۔ اور میں صرف ایک کتاب لکھتی تو میں کوئی ایسی داستاں لکھتی جو پڑھنے سننے والوں کو باندھ لیتی۔ جو کبھی پرانی نہ ہوتی۔ ہر انسان کے دل میں اتر جاتی اور وہ اس کو کبھی نہ بھول پاتے۔
یا اگر میں ایک نغمہ گر ہوتی۔۔ اور صرف ایک کتاب لکھتی تو میں اس میں ایسے نغمے بنتی جو ذہنوں پر جادو کر دیتے ، لوگ ایک ہی بار سن کر اس میں گم ہو جاتے اور پھر کبھی کسی اور نغمہ گر کی طرف متوجہ نہ ہوتے۔
اور اگر میں ریاضی دان ہوتی۔۔ اور میں صرف ایک کتاب لکھتی تو میں اس میں ایسے نظریے دریافت کرکے لکھتی کہ انسان رہتی دنیا تک اس پر ششدر رہ جاتے اور ان کو سمجھنے اور ان سے آگے نکلنے کی تگ و دو کرتے رہتے اور نہ کامیاب ہوتے۔
یا پھر میں سائنسدان ہوتی اور صرف ایک کتاب لکھتی تو میں دنیا کی ہر حقیقت پر اتنی تفصیل سے روشنی ڈالتی کہ کوئی پہلو بھی نظر سے اوجھل نہ رہ جاتا اور انسان دوبارہ کبھی وہم و گماں کا شکار نہ ہوتے۔
اگر میں کسی بھی انسانی ہنر کی ماہر ہوتی اور اپنے ہنر پر صرف ایک کتاب لکھتی تو میں اس کو اپنا پہلا اور آخری اور مکمل کام سمجھ کر ایسے لکھتی کہ وہ ایک لازوال شاہکار بن جاتی۔ سدا پڑھی جاتی، سدا سمجھی جاتی۔
اور جو ابتدا ہو، اور انتہا ہو۔ اور جس نے لفظ بنایا ہو، اور جس نے نطق بنایا ہو۔ جس کے خیال کا نام سائینس ہو،۔جس کے کام کو سمجھنے کی ادنی سی کوشش کو ریاضی کہتے ہوں، جس کا ہنر انسان اور جن ہوں۔ اور انسانوں کے ہنر اسکی عطا۔ اگر علم اسکی بخشش کا نام ہو اور وہ صرف ایک کتاب لکھے۔ تو وہ حکمت کی کتاب ہوگی۔
وہ کتاب اس کا ایسا ہنر ہوگی۔ کہ جو اس کو سنے یا پڑھے وہ اس کے دل میں اتر جائے۔ ہر حقیقت کو ایسے بیان کرے کہ وہ تمام زمان و مکاں کے لیے ازل سے ابد تک مکمل ہو جائے۔ اتنی تہ دار ہو کہ انسان رہتی دنیا تک اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہتے اور ہمیشہ ایک نیا رخ سامنے آ جائے۔ اتنی روشن ہو کہ جن و انس کبھی وہم و گماں کا شکار نہ ہوں۔ اتنی آسان ہو کہ کھلی دلیل کے سوا کچھ نہ لگے۔ اتنی مکمل ہو کہ ہر دور میں اس سے آگے نکل جانے کے زعم میں رہ جانے والے ہر مرتبہ اس کو خود سے آگے پائیں۔
اگر جو صرف ایک ہو۔اور صرف ایک کتاب لکھے تو وہ اپنے بارے میں ایسے لکھے۔۔ کہ اس کو جو بھی پڑھے وہ جہاں سے بھی ہو صرف اس تک پہنچے اور اسی میں گم ہو جائے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں