06 فروری 2012

کھیل تہذیب (سولائزیشن)۔



کمپیوٹر گیمنگ کے شائقین سولائزیشن کے نام سے بخوبی واقف ہوں گے۔ نقاد دو عشرے سے سٹریٹیجک گیمز کے زمرے میں اسے متفقہ طور پر سب سے زیادہ کھیلی جانے والی۔۔ یا سب سے زیادہ بکنے والی گیم قرار دیتے ہیں۔ چار ہزار قبل مسیح سے موجودہ دور تک کی تہذیب کو ہماری انگلیوں کی جنبش پر لا گرانے والا تہذیب کا یہ کھیل ہر کھیلنے والے کو اپنے وسیع کینوس، لا محدود امکانات اور مستند حوالوں سے موہ لیتا ہے۔

ابتدائی طور پر کھیل جیتنے کے زیادہ تر عوامل مطلق العنانی پر مشتمل تھے لیکن نئے ورژنز میں حتمی سکورنگ کو کثیر جہتی کر دیا گیا ہے۔ اب جیت سفارتی و سیاسی، سماجی و ثقافتی، تحقیقی و سائنسی بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن اس میں کھلاڑی کو دوسری تہذیبوں سے بڑھ کرکچھ کر دکھانا ہوتا ہے۔ ویسے جیت کا ایک منظر نامہ یہ بھی ہے قوم کی آبادی کا حصہ پوری گیم کی آبادی میں قریبا پینسٹھ فیصد ہو، یا وہ اسی قدر رقبے پر قابض ہو۔ جس کے نتیجے میں علاقے اور آبادی کے وسائل بھی اس کو مہیا ہو جاتے ہیں۔

لیکن یہ اتنا سادہ نہیں جتنا سم سٹی کا پہلا سبز خالی قطعہ نظر آتا تھا۔ تہذیب کے قوانین دشوار، مخالف مشکل اور حرکات پیچیدہ ہیں۔ کمپیوٹر کے پیدا کردہ شہر آپ کے متوازی چلتے ہیں۔ ان کے لیڈروں کا رویہ پیداواری صلاحیت، عصری حکمت، فوجی ترجیحات اور توسیع پسندانہ عزائم کا ایک منفرد مجموعہ ہو سکتاہے۔ جسے سمجھنے کے بعد ہی کوئی بھی تہذیب اپنی بقا اور ترقی کے لیے ایک راستہ وضع کر سکتی ہے۔ مبصر کبھی کبھی اسے گاڈ گیم کہتے ہیں۔ لیکن تصویریں جتنی بھی حقیقی ہوں کھلاڑی کے اختیارات کو محدود کرنے کے لیے اندر ہی اندر کئی عوامل کام کرتے ہیں جن کوہر بار تھوڑا اور سمجھنے کے بعد پھر نئے سرے سے کھیلنے کے لیے تازہ دم ہونا پڑتا ہے۔

اپنے دشمن (اور دوست) چننے کے بعد جب ہم چار ہزار قبل مسیح سے اپنا سفر شروع کرتے ہیں تو ہمارے پاس ایک قطعہ زمین اور چند لٹے پٹے مسافروں کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ سب سے پہلا مسئلہ تو ظاہر ہے سیٹلمنٹ ہوتا ہے۔ جس کے ساتھ ساتھ شہریوں کے رہنے کھانے اور لٹیروں سے بچاو کا فوری انتظام کرنا ہوتا ہے۔ سٹی سٹیٹس کو ترقی دینے کے لیے چند بنیادی مطلوبات کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس میں اطراف کی زمین کے وسائل کی دریافت اور ان کو استعمال میں لانے کے طریقے وضع کرنا اور علم کا حصول ہے۔ اس دوران دوسری قومیں بھی اپنی چال چلتی رہتی ہیں۔

گو کھلاڑی کی جیت میں اس بات کا بڑا ہاتھ ہے کہ اس نے کھیلنے کے لیے کونسی قوم چنی ہے اور اس کے ہمسائے کون ہیں کیونکہ کچھ قوموں کو جان بوجھ کر دوسری قوموں پر کسی نہ کسی طور برتری دی گئی ہے۔ لیکن قانون کو سمجھ لینے کے بعد کسی بھی قوم کو اوج کمال تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ ویسے پہیے کی ایجاد سے نیوکلیر دریافتوں اور الفا سینچری تک کے خلائی سفر کو آسان کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کھیل کو ایزی پر سیٹ رکھا جائے۔ جلد یا بدیر منزل آ جاتی ہے۔

کھیل کی آسانی یا دشواری کا براہ راست تعلق کھلاڑی کے چنیدہ علاقے کے قدرتی ذخائر اور متعلقہ قوم کے تاریخی ورثہ اور پس منظر کے علاوہ دوسری قوموں کی عسکری و دیگر پیش رفتوں اور عوام کے نظم و ضبط اور خوشی سے ہے۔ لیکن ان تمام پہلووں کا فردا فردا جائزہ لینا بہتر رہے گا۔

شہر اور شہری

کچھ علاقے قدرتی وسائل میں قدرتی طور پر مالدار ہوتے ہیں۔ کچھ اناج وغیرہ کی پیداوار میں خود کفیل ہوتے ہیں مثلا دریاوں کے کنارے بسنے والی قومیں۔ ایسے مقامات پر بسنے والے شہروں کو باقی قومیتوں پر ایک مخصوص ابتدائی برتری حاصل ہو جاتی ہے۔ لیکن جوں جوں کھیل کو مشکل کرتے ہیں یہ عوامل کم ہو جاتے ہیں۔ دوسرا بڑا فیکٹرعوام کی قناعت پسندی ہے۔ آسان سیٹنگ پر عوامی خوشی کی مقدار زیادہ اور مشکل پر کم ہوتی ہے۔ ایسے ہی کسی دیے گئے درجے پر قانع شہریوں کی ایک مخصوص تعداد موجود ہوتی ہے۔

شہر اپنے اردگرد واقع ایک مخصوص حد کو متاثر کرتے ہیں۔ اور انہی مقامات پر خوراک کی پیداوار، نقل وحمل کی تشکیل وغیرہ کی جا سکتی ہے۔ اردگرد کے مقامات پر کام کرکے ان کو اپنی ضرورت کے مطابق قابل استعمال بنایا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کا شہر کے حیطہء عمل میں ہونا ضروری ہے۔

شہروں کی بقا، پرداخت اور ترقی میں خوراک کی پیداوار سب سے اہم ہے۔ بلکہ اس کی آبادی کا اضافہ کا بھی پیداوار ہی سے راست تناسب کا تعلق ہے۔ خوراک کی پیداوار میں کمی یا خاتمے اور گوداموں کی تباہی وغیرہ سے شہر کی بقا کا حقیقی جواز ختم ہو جاتا ہے۔

جیسے خوراک شہر کے حجم وغیرہ کو بڑھاتی ہے، تجارت اس کو مستحکم کرتی ہے۔ تجارت اور لین دین کا پیداواری کھاتا ریسرچ، ریوینو اور اشیائے تعیشات کے زمروں میں حسب ضرورت تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایسے ہی شہریوں کو مختلف اقسام میں بانٹا جا سکتا ہے۔ جن میں کاریگر بنیادی حیثیت کا حامل ہے جو خوراک اور تجارت کرنے کے لیے ضروری ہے۔

اس کے علاوہ شہری سائنسدان، سول انجنیرز، محصول کنندگان اور پولیس پر مبنی ہوتے ہیں۔ شہریوں کو مخصوص شعبہ جات تفویض کرنے سے ان کا شہر کی بنیادی یا تجارتی پیداوار میں حصہ کم ہو جاتا ہے لیکن اس سے سائینسی اور ریسرچ کے منصوبوں اور پیداوار اور محصول اور تعیشات زندگی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اہم نوعیت کی عمارات اور ونڈرز بنانے کی رفتار بھی بڑھ جاتی ہے۔ پولیس کا کردار شہری کرپشن کم کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ دوسری طرف اگر شہر میں ان مخصوص کاموں کے وسائل، ذرائع یا مواقع کم ہوں تو اضافی شہری اینٹرٹینر بن جاتے ہیں۔ اور شائد دن رات سٹینڈ اپ کامیڈیز تیار کرتے رہتے ہیں۔

شہری مشنری، جاسوس یا سیٹلر بھی ہو سکتے ہیں۔ جن کو دوسرے علاقوں میں بیجھ کر متعلقہ فوائد اٹھائے جا سکتے ہیں۔ جاسوس مخالفین کے مشن کی معلومات لینے، پروپیگنڈا کرنے اور ان کے مشن سبوتاژ کرنے وغیرہ کے لیے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ سیٹلر نئے شہر بسانے کا کام کرتےہیں۔ مشنری مذہب کی ترویج کرتے ہیں۔ پوری مملکت میں ایک مذہب کی اکثریت کے فوائد ہیں۔ اور یہی مشنری دوسرے علاقوں میں کلچر فلپنگ کا کام بھی کرتے ہیں۔


شہریوں کی ایک بڑی تعداد کا کسی نہ کسی صورت خوش یا قانع ہونا ضروری ہے کیونکہ اگر ان کی ایک بڑی تعداد ناخوش ہوجائے تو سول ڈس آرڈر شروع ہو جاتا ہے۔ یہ شہر کو کمزور کرنے والا ایک بہت اندرونی فیکٹر ہے جو خوراک یا ریوینو کی کمی وغیرہ جیسے عناصر ہی کی طرح بالاخر شہروں کی بقا کو لاحق ایک بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔ یہاں بھی ایک آسان شہر میں خوش یا قانع شہریوں کی تعداد زیادہ ہوگی اور ایک مشکل شہر میں ناخوش افراد بکثرت پائے جائیں گے۔

سول ڈس آرڈر یا خانگی انتشار میں خوراک کی پیداوار تو کم و بیش جاری رہتی ہے لیکن کسی قسم کی تجارتی یا سائینسی پیداوار وغیرہ ممکن نہیں رہتی۔ اور شہر کا انتظام زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔ فوری علاج کے لیے کھلاڑی سائینسی ریسرچ فنڈز کو کم کرکے تفریحی مواقع زیادہ کر سکتا ہے۔ لیکن اس کے دور رس نتائج میں ریسرچ کی رفتار کم ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ہر نئے شہر میں اچھے تفریحی مقامات یا جن کو ونڈرز کا نام دیا جاتا ہے کا اختیار استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ایک طریقہ ملٹری فورس کا استعمال بھی ہے جس سے شہریوں کو ڈسپلن کیا جاتا ہے۔ لیکن ایسی صورت میں شہریوں کی خوشی میں خاطر خواہ اضافہ ممکن نہیں ہے۔

انتشار کے برعکس ایک اچھے منظم شہر میں شہری خوش ہوکر"وی لو دا کنگ ڈے" کا اہتمام کرتے ہیں جو آپس کی بات ہے ایک بہت ہی خوشکن احساس پیدا کرتا ہے۔ ایک شہر کے مالی ذخائر زیادہ ہونے اور کلچر مضبوط ہونے سے اس کا دائرہ اختیار خود بخود بڑھتا جاتا ہے۔

باقاعدہ فوج کے علاوہ شہر اپنا دفاع خود بھی کر سکتے ہیں۔ اور ناکامی کی صورت میں اسے لوٹا یا تباہ کیا جا سکتا ہے۔ تیسری صورت میں کٹھ پتلی شہر کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ آخری صورت میں گو اختیارات کی منتقلی نہیں ہوتی لیکن اس کے جملہ وسائل پر حملہ آوور کو اختیار ہو جاتا ہے۔

ثقافت، مذہب اور قومیت

ثقافت ایک طرح سے قوم کی سرحد کا تعین کرتی ہے۔ اور اسی کی مدد سے دوسرے شہروں، تہذیبوں وغیرہ پر اثر انداز ہوا جا سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں کلچر فلپنگ کی اصطلاح سامنے آتی ہے۔ یعنی کسی علاقے کا کلچر اتنا بہترین بنا کر پیش کیا جائے کہ دوسرے ویسا بننے کی خواہش کرنا شروع کردیں۔ اس کی مدد سے ہمسایہ شہروں پر کسی بھی فوج کے بغیر پر امن قبضہ جمانا ممکن ہے۔ اور مفتوحہ شہر کی عمارات وغیرہ تباہ نہیں ہوتی۔ اس سے عالمی کمیونٹی میں کھلاڑی کو منفی کی بجائے مثبت ریپوٹیشن ملتی ہے۔ اس کا کلچر ٹوٹل زیادہ ہو جاتا ہے۔

مذہب تہذیب کا ایک اہم حصہ ہے۔ نئے ورژن میں مخصوص نوعیت کی عبادتگاہیں بنانے کی اپشن بھی رکھی گئی ہے تاکہ شہروں کے کلچر اور خوشی میں اضافہ کیا جا سکے۔ ایک جیسے مذاہب والی قوموں میں اتفاق رائے اور سفارتی تعلقات کی نوعیت بہتر ہوتی ہے۔ جبکہ مختلف مذاہب والی قوموں میں قدرتی دشواری رکھی گئی ہے۔ کسی مخصوص مذہب کے ایک شہر میں پھیل جانے کے بعد اسے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم شہروں میں مذہب کی موجودگی بہت سے دورس فوائد کی حامل ہوتی ہے۔

قومیت بنیادی طور پر چنی گئی تہذیب سے متعلق ہوتا ہے۔ اسی نظریے کی بنیاد پر کھیل میں جنگ اور انقلاب وغیرہ کے عوامل کو پیچیدہ بنایا گیا ہے۔ ایک قوم کے شہری جہاں پیدا ہوتے ہیں اس سے فطری لگاو رکھتے ہیں اور جب ان شہروں پر قبضہ ہوتا ہے تو وہ نئے کلچر کا حصہ بننے میں وقت لیتے ہیں۔ جس کا انحصار اس نئی تہذیب کے کلچر کی مضبوطی پر ہے۔ کمزور کلچر ان لوگوں کو خود میں سمو نہیں پائے گا اور ان میں بغاوت ہونے کا خطرہ رہے گا گو وہ معاشرے میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔ اسی طرح مقبوضہ فوج کی کارکردگی بھی مقامی فوج سے کم ہوتی ہے۔

تحقیق

سائینسی ترقی اور تحقیق کھیل کو آگے چلاتے رہنے کے سب سے بنیادی عوامل میں سے ایک ہے۔ اس کے بغیر رہنے سہنے کے نئے طریقوں سے واقفیت، نئے وسائل کی تلاش اور استعمال اور تجارت میں اضافہ ممکن نہیں۔ نئے ونڈرز کی تعمیر ممکن نہیں ہے۔ فوج کو نئے زمانے سے ہم آہنگ کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ اس کے بغیر دوسری تہذیبوں سے باعزت ڈیلینگ ممکن نہیں ہے۔

پرانے ورژن میں تحقیق اور ٹیکنالوجی کی تجارت، چوری اور تبادلہ وغیرہ موجود تھا۔ لیکن اس کو جوائینٹ ٹیکنالوجی وینچرز سے بدل دیا گیا ہے۔ باہمی امن سے رہنے والی تہذیبیں مساوی رقوم سے سائٰنسی منصوبے تیار کرسکتی ہیں جس سے ہر دو کو باہم فائدہ ہو اور اس کی معیاد ان کے درمیان موجود امن کے قیام تک ہے۔ اس کا دوسرا طریقہ اپنے مخالف کو کسی مہنگے منصوبے میں الجھا دینا ہے جبکہ کھلاڑی کو جنگ کی تیاری کے لیے وقت وغیرہ درکار ہو۔

ہتھیار، فوج اور جنگ

جنگ و جدل کے بغیر تہذیب کا کھیل ادھورا ہی رہ جاتا۔ نئے ورژن میں جنگ کو زیادہ حقیقی رنگ دینے کے لیے ایک گیم ٹائل پر ایک ہی یونٹ کو ٹہرانے کی گنجائش ہے۔ جس سے جنگ کو ایک بڑے خطے پر پھیلانے اور مورچہ بندی کا حقیقی تصور دینے میں آسانی ہو گئی ہے۔

کھلاڑی جتنا بھی امن پسند ہو، اپنے اطراف کی قوموں سے جتنے بھی امن معاہدے کرلے، جیتنے کی حکمت عملی کوئی بھی ہو جنگ درپیش ہو ہی جاتی ہے۔ یہیں سے اس کی یونٹس کو تجربہ حاصل ہوتا ہے۔ ہر مخصوص یونٹ کی حملہ اور دفاع کی ایک مخصوص صلاحیت ہوتی ہے۔ اور حملہ آوور کے سامنے اسی صلاحیت کا امتحان ہوتا ہے۔ علاقے کی دشواری، دریاوں کی موجودگی، قلعہ بندی وغیرہ کو کھلاڑی اپنے حق میں استعمال کرسکتا ہے۔ اور اس کے مخصوص بونس ہیں۔ مثلا پہاڑوں میں لڑنا میدانوں میں لڑنے کی نسبت دشوار ہے تو اس سے دفاع مضبوط ہوگا وغیرہ۔

چونکہ جنگ کی ہار جیت کا فیصلہ لونگ رن میں نقصانات کے تخمینے وغیرہ سے ہوتا ہے اس لیے کبھی کبھی ممکن ہے کہ بظاہر پسماندہ نظر آنے والے اپنی حکمت عملی یا اوپر بتائے گئے عوامل کی مدد سے جنگ کے حتمی فاتح قرار پائیں لیکن یہ بار بار نہیں ہوتا۔ کسی بھی دی گئی صورتحال میں اگر حملہ آوور تہذیب یا دہشتگرد (باربیرین) ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں میں کھلاڑی سے بہتر ہیں تو اس کا مقابلہ صرف جوش و جذبے، ڈپلومیسی یا تاوان سے نہیں ہوسکتا۔ ایسے میں تلواروں سے لڑنے والے نائٹ نیوکلیر لانچر یا کروزمیزائل کی بمباری کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ پھر خواہ ہم اس علاقے پر چار سوسال سے حکمران ہوں یا چار ہزار سال سے، فوجی پسماندگی کے نتیجے میں ہماری امن پسند تہذیب صفحہ سکرین سے ایسے مٹ جاتی ہے جیسے کبھی تھی ہی نہیں۔

ایک یونٹ کی تیاری میں کافی وقت، محنت اور وسائل درکار ہوتے ہیں۔ تجربے کی بنیاد پر ان کے چار درجات ہوتے ہیں اور سب سے زیادہ تجربہ کاریونٹ ایلیٹ کہلاتی ہے جس کے ہٹ پوائینٹ پانچ ہیں۔ اسی یونٹ سے لیڈر اٹھتے ہیں۔ عملی جنگ کے وقت ان کی کارکردگی باقی یونٹ ہی کے برابر ہوتی ہے۔

اگر کھلاڑی اپنی فوج کو وسائل سے سپورٹ نہ کر سکے تو اس کویونٹ ڈس بینڈ کرنے پڑتے ہٰیں۔ ابھی تک کھیل میں ایسی فوج بنانے کی آپشن نہیں ہے جو اپنے بنائے ہتھیار بیچ کر یا امن دستے بھیج کر اپنے اخراجات کے لیے خود رقم مہیا کر سکے۔ کھیل کے تمام تر ریسورسز مرکزی ہیں اور وہیں سے نئے ہتھیار، ٹیکنالوجی کی فراہمی اور یونٹس کی تیاری وغیرہ کا اہتمام ہوتا ہے۔

گیم چیٹ اور کامیابی

کھیل میں ثقافتی اثرات، کرپشن، ناخوشی کے اضافہ، دہشت گردوں کے حملے، جاسوس، مشنری اور سٹی سٹیٹ (چھوٹی خودمختار ریاستیں) وغیرہ کو کمپوٹر کی سائیڈ سے کھلاڑی کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف انہی عوامل کو کمپیوٹر اپنے حق میں استعمال کرکے پانسہ پلٹ سکتا ہے۔ ایسے لگتا ہے اس کے شہری ہمیشہ زیادہ خوش، کرپشن ہمیشہ کم، جاسوس زیادہ مستعد اورکلچر زیادہ مضبوط نکلتا ہے۔

کھیل کو جیتنے کے چند ہی طریقے ہیں۔ یا تو کھلاڑی ہر دوسری تہذیب کوملیامیٹ کر دے یا اپنی آبادی اور وسعت کے ذریعے دنیا کے چھیاسٹھ فیصد حصے پر قابض ہو جائے ۔ یا اس کا کلچر اتنا بااثر ہو کہ ہر شخص اس میں شامل ہونا چاہے۔ یا سفارتی کامیابیاں اتنی بڑھ جائیں کہ یواین میں اسے لیڈر چن لیا جائے ۔ یا پھر سائینسی ترقی میں دوسرے سب لوگوں سے بہت آگے نکل جائے۔

کھیلنے سے پہلے ہمارے نظریات تہذیب کے بارے میں کچھ سرسری ہوتے ہیں۔ جیسے کہ ابتدائی تہذیبیں زیادہ تر دریاؤں کے کنارے کنارے بسا کرتی ہیں۔ تاریخ کے بارے میں خیالات بھی جذباتی تاریخی ناولوں کی گرد میں اٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ اور یہ درست ہے کہ تہذیبیں بستی ہیں پھر ریگزاروں سے اٹھنے والے بگولوں کے ہاتھوں اجڑتی ہیں۔ جنگیں شروع ہوتی ہیں پھر ہار جیت سے ختم ہوتی ہیں۔ لوگ مرتے اور جیتے ہیں۔ سرحدیں بنتی ہیں اور بگڑتی ہیں۔ لیکن اب بغیر پلاننگ اور وسائل کی سٹریٹیجک تقسیم کے کمپیوٹر سکرین کا ایک انچ کا قطعہ بھی زیادہ دیر تک آباد نہیں رکھا جا سکتا۔

غلطیوں کی اس کھیل میں گنجائش نہیں ہے۔ ہمارے مخالف(اے۔آئی)۔ حکمران شطرنج کے شاطر اور گھاک کھلاڑی کی طرح اپنی چال چلتے ہیں۔ بظاہر تمام قوانین پر عمل کرتے ہوئے۔ لیکن جب ہم دیکھ نہیں رہے ہوتے وہ جیت کے طویل المعیاد منصوبہ جات تیار کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے شہروں کی بہبود کو بہتر سے بہتر بنا رہے ہوتے ہیں۔ جب ہم دیکھ نہیں رہے ہوتے وہ سائینس کی نئی دریافتوں کا اعلان کرتے ہیں۔ وہ سفارتی تاروپو میں الجھے ہوتے ہیں۔ پھر ہمارے حامی ہمارے مخالفین کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ ہمارے کلچر فلپ ہو جاتے ہیں۔ جب ہم دیکھ نہیں رہے ہوتے وہ جنگ کی پوری تیاری کیے سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں۔ جب ہم دیکھ نہیں رہے ہوتے وہ کہیں نہ کہیں سے ہمیں کمزور دیکھ کر ایک آخری وار کرتے ہیں۔ پھر ہمارے شہر برباد، یونٹ ڈس۔بینڈ اور حکمران شہید اور لوگ بےآسرا ہو جاتے ہیں۔ ہم بے یقینی اور بے بسی سے کمپیوٹر سکرین کو دیکھتے ہیں۔ موسیقی کی لے کچھ اور اونچی کرتے ہیں۔ ہمت و حوصلہ دوبارہ جمع کرکے کھیل ری۔سٹارٹ کرتے رہتے ہیں۔۔۔ ورژن کوئی بھی ہو بنیادی اصول قریبا ایک سے ہیں۔۔۔ اینڈ گیمز آن

4 تبصرے:

محمد ریاض شاہد کہا...

شکریہ ۔ گیم کا بہت اچھا تعارف ہے ۔ مزہ آیا

ali کہا...

یہ گیم ہے؟ ہم باز آئے بھائی، ہم سولیٹیر پر ہی خوش ہیں۔
:)

Anonymous کہا...

what is the full name of this game. is it from Microsoft?

رافعہ خان کہا...

Civilization.no Not Microsoft.