اگر ایک مثالی مشین عمومی حالات میں مثالی کارکردگی کی حامل ہو سکتی تو شائد ایک عمومی سگنل بھی لامحدود طور پر فضا میں موجود رہتا۔ آسان الفاظ میں جو ہم کل بولتے اس کو آج بھی سن سکتے۔۔ کیونکہ آواز کی لہریں مسلسل چلتی رہتیں اور کبھی ختم نہ ہوتیں۔ لیکن حرحرکی قوانین نے ابدیت کے مثالی تصورات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ہر طرح کے عوامل کی موجودگی میں سگنل طول میں تو بڑھ گئے ہیں لیکن ان کی عمر میں کچھ خاص اضافہ نہیں ہو پایا۔ ورنہ میمو کا مسئلہ اتنا لمبا نہ جاتا۔
کتنا آسان ہوتا کوئی ایک سر پھرا ایک مخصوص فریکوینسی نشر کرتا اور ہم اپنے اپنے ریڈیو اس پر ٹیون کرکے براہ راست سب بات چیت اپنے اپنے کانوں یا سماعتی آلوں سے صاف صاف سن لیتے پھر حقدار کو اس کا حق رسید کرتے اور کسی اور کو موقع دیتے۔۔ کہ آو اور اپنی دنیا سنوارو۔ لیکن کیا کیا جائے دنیائے سائینس انسانی ضرورتوں سے ابھی بہت ہی پیچھے ہے۔ ابھی تک ہم ریکارڈنگ اور ٹیکسٹ ہسٹری وغیرہ پر تکیہ کرتے ہیں جو بیک وقت بڑوں کے ثبوت اور بچوں کا کھیل ہیں۔ اور بچوں کا کھیل سے میری مراد وہ سپائی واچ ہے جس کو وہ چپکے سے میرے کمرے میں سرکانے کے بارے میں کھسر پھسر کر رہے ہیں تاکہ باقی چھٹیون کا پلان جان سکیں۔
لیکن آواز کی لہروں کا طویل العمر ہونا واقعی ایک اہم ضرورت ہے۔ کیونکہ اس سے بہت سے ابہامات کا خاتمہ ممکن ہے۔ کس نے کس وقت کیا کہا تھا اس پر لڑنے کی قطعا ضرورت نہیں پڑے گی۔ کیونکہ سب کا کہا ہوا بالکل سامنے کی بات ہوگی۔ اور اگر فوٹو بھی مل جائے تو یہ ویڈیو کیمرہ وغیرہ کا مسئلہ ہی ختم ہوجائے بس آرام سے کل کی، پچھلے سال کی، دس سال پیچھے کی وغیرہ وغیرہ ساری باتیں اور فوٹوز دیکھتے رہیں۔ بلکہ میں تو سوچتی ہوں تاریخ کی کتابوں کی بہت سی ارادی ۔۔ اور غیر ارادی غلطیوں کا خاتمہ ممکن ہے۔ جنگوں کے اسباب پر ہر ایک اپنی ذاتی روشنی ڈال سکتا ہے اور خوب تفصیل سے دیکھ سکتا ہے کون کیا کر رہا تھا اور کیا کہ رہا تھا۔
اور پھر یہاں پر رکنے کی کیا ضرورت ہے۔ ایک دفعہ صحیح فریکوینسی کی تلاش اور اشاعت کی ضرورت ہوگی پھر جن جن کے پاس مخصوص آلات (میری ترجیح تو ریڈیو ہی ہے۔) لیکن اگر واقعی سائینس نے زیادہ کمال دکھانے کی سوچی اور ماضی کی لائیو ویڈیو دیکھنے کا سلسلہ بن ہی گیا تو دو ایک کیا پوری چودہ صدیاں۔۔ یا دو ہزار سال پیچھے جا سکتےہیں۔ کیو ٹی وی والے براہ راست نشریات کا آغاز کرسکتے ہیں۔ اگر ڈزنی والوں نے ماضی کو ری کاسٹ کرنے کے تمام حقوق پہلے ہی سے محفوظ کر لیے تو اس پر بحث شروع کی جا سکے گی کہ کچھ ویڈیوز صحیح ہیں کچھ باطل۔ پھر کچھ ویڈیوز جلانی پڑیں گی۔ کچھ کو عوام کی پہنچ سے دور رکھا جائے گا تاکہ انہیں صحیح غلط کا کچھ معلوم نہ ہو سکے۔ الغرض تحقیق اور کاروبار کی ایک واضح نئی راہ سامنے ہوگی۔ پھر کس کس کی دکان چمکے گی اور کس کس کی بند ہوگی یہ بعد کی بحث ہے۔
ذاتی طور پر میری اولین ترجیح ان چیدہ مواقع کا مطالعہ ہوگا جہاں خدا نے بندے سے خود پوچھا۔ لن ترانی سے میں واقف ہوں۔ اور یہ بھی نہیں کہ مجھے عربی یا عبرانی وغیرہ سے کچھ واقفیت ہے۔ سو بات تو مجھے سمجھ نہیں آئے گی (کم از کم جب تک ٹرانسلیٹر کی سہولت ساتھ نہیں آتی)۔ لیکن بہرحال آواز سننا بھی شرف ہے۔ کافی خصوصی شرف۔ لیکن پھر ایسا ہی لگتا ہے کہ اگر یہ شرف عوامی ہوتا تو آواز کی لہروں میں کچھ تو پائیداری ہوتی۔ پھربھی مایوسی کی کوئی بات نہیں۔ علاج تنگی داماں پر غور کریں۔ خلائے بسیط بہت وسیع ہے۔
خلا میں فریکشن کی کمی کی وجہ سے کوئی بھی لہر ہمیشگی کی حامل ہو سکتی ہے۔ اور بھلا ہو اوزون کو برباد کرنے والوں کا۔ کئی زمینی آوازیں اور فریکوینسیز ادھر ادھربھٹکتی مل جائیں گی۔ اور خلا میں موجود آوازوں پر تحقیق تو ہو ہی رہی ہے۔ صرف نا موجود تھا تو میڈیم۔ اینٹی میٹر نے وہ کمی بھی دور کر دی۔ اب جہاں کچھ نہیں ہوگا تو ہوگا۔ میرا مطلب ہے جہاں مادہ نہیں ہوگا ضد مادہ ہوگا۔ ویسے سایئنسدان کافی خوش تدبیر ہوتے ہیں۔ اپنی دوربین سے گیسوں کےاخراج اور روشنی کے مخصوص پیٹرن کے ڈوپلر امیجز کا مطالعہ کرکے گھر بیٹھے سونگ اف سن بلکہ اکثر سیاروں کی آوازوں کی ریکارڈنگ مہیا کرچکے۔ کوانٹم تھیوری کے مطابق اگر وہ کچھ اور ہمت کریں تو اینٹی میٹر میں ان کو کافی سننے کو ملے گا۔ لیکن اس کی ایک حد ہے۔۔
"وہ عالم بالا کی باتیں نہیں سن سکتے اور ان پر ہر طرف سے (انگارے) پھینکے جاتے ہیں۔ اُن کو بھگانے کے لئے اور اُن کے لئے دائمی عذاب ہے۔ الا یہ کہ کوئی اچک لے اڑتی ہوئی کوئی بات (جو ایسا کرتا ہے) تو پیچھا کرتا ہے اس کا چمکتا ہوا انگارہ۔"
1 تبصرہ:
کچھ دن قبل آپ کی تحریر فئیر ویدر پڑھی تھی۔ تب سوچا تھا اس بلاگ کی تمام تحریریں دیکھوں گا۔ سو آج آرکائیوز کی مدد سے اول تا آخر تمام تحریرں دیکھ ڈالیں۔ بہت اچھا تجربہ رہا یہ۔ ذرا منفرد قسم کا مواد ملا پڑھنے کو۔ شکریہ
ایک تبصرہ شائع کریں