اڑتی سوچیں پر سمیٹے خیال افق پر گم ہو جاتی ہیں
دل اک تسلسل سے سانس گنتا
رکنے لگتا ہے
رکنے لگتا ہے
آنکھوں کے جلتے سورج
روٹھی پلکوں پیچھے ڈوب جاتے ہیں
آوازیں لڑکھڑا کر سماعتوں کی بے نیازی سے
گھبرا کر رونے لگتی ہیں
بے سوال چہرے کا رنگ ساکت نظروں سے سب کو تکتا ہے
روٹھی پلکوں پیچھے ڈوب جاتے ہیں
آوازیں لڑکھڑا کر سماعتوں کی بے نیازی سے
گھبرا کر رونے لگتی ہیں
بے سوال چہرے کا رنگ ساکت نظروں سے سب کو تکتا ہے
ان پرشور لمحوں میں اندھیرے سایوں سے
چپکے سے کچھ کہتے ہیں
آنسو دل میں اٹھتے ہیں رک رک کر
بہتے نہیں پر چبھتےہیں
اور سارے میں ایک کڑوی بو لہراتی ہے
آنسو دل میں اٹھتے ہیں رک رک کر
بہتے نہیں پر چبھتےہیں
اور سارے میں ایک کڑوی بو لہراتی ہے
_________________
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں