کل شام کو جب سب نکلے تو میرا دماغ حسب عادت سب کچھ ساتھ ہی اٹھا لایا۔ وہی رات کے کھانے کا مینو، پڑوسن سے کرنے والی گفتگو، سالانہ امتحانات کی ورک شیٹس کی فکر، سیلوں کی تاریخیں، چھٹیوں کا نقشہ۔۔۔ گاڑی کے باہر کے مناظر سے بے نیاز اور گاڑی کے اندر ( اپنے اور دوست کے) بچوں کے مناظر سے بےزار میں کچھ غیر حاضر سی تھی جب چھوٹی کی بڑی سی آواز نے مجھے چونکا دیا۔۔ ماما ۔۔ ۔کتنا بڑا چاند۔۔۔
شام پانچ بجے مجھے چاند کے بھدے پھیکے پن کے علاوہ کسی چیز کی توقع نہیں تھی۔ سو حسب عادت دیکھے بغیر ہی واہ واہ کا نعرہ بلند کر دیا۔ پھر واہ واہ کی بازگشت دو ایک مرتبہ اور بلند ہوئی تو میں نے سرسری نظر داہنی طرف ماری۔ چاند واقعی بڑا اور ضرورت سے زیادہ اجلا تھا۔
سورج غروب ہونے سے بھی پہلے ایسا چاند۔۔ میں تھوڑی حیران تھی
چاند بہت قریب ہے۔ اور تمہیں حیرانی ہوگی کہ کل سال کا سب سے بڑا پورا چاند ہے۔ احسن ہمیشہ کی طرح حیرانی کو ایک درجہ آگے لے گئے۔
کیا واقعی۔ اب میں نے ذرا غور کیا۔ اور بہت دنوں بعد اس کی خوبصورتی کو ٓنکھ بھر کر دیکھا۔ بلکہ باقی رستہ میں نے چاند ہی کو کھوجتے گزارا۔
گھر آ کر ویب پر چیک کیا تو معلوم ہوا یہ واقعی سال کا بلکہ دس سال کا سب سے بڑا پورا چاند ہے جو آج تین سے چھے پاکستانی رات تین ۔۔ نارتھ امیریکہ میں دیکھائی دے گا۔ جب چاند اپنے مدار میں زمین کے قریب ترین ہوتا ہے تو اپنے معمول کی جسامت سے کچھ دس فیصد زیادہ بڑا دکھتا ہے جسے ہم عمومی آنکھ سے اکثر نہیں دیکھ پاتے۔
ویسے تو چاند کو دیکھنے کی بھی ایک لگن اور عمر ہوتی ہے۔ لیکن کیا واقعی زندگی گزارتے گزارتے ہم ان چھوٹی چھوٹی خوبصورتیوں کو یونہی بےکار سمجھ کر نظر انداز کرنا سیکھ جاتے ہیں۔ بچوں کا ساتھ مجھے مالک کی طرف سے دنیا دیکھنے کا ایک چھوٹا سا ریفریشر کورس لگتا ہے جس میں ہماری آنکھ اور دل تازہ دم ہو کر نئے سرے سے محسوس کرنا شروع کرتے ہیں۔
1 تبصرہ:
یہ جو بات آخری پیرا میں لکھی گئی ہے بالکل ایسا ہی ہے زندگی میں۔
ایک تبصرہ شائع کریں