کچھ ایسا ہے کہ زندگی کو بلاگ کرنا بہت ہی مشکل عمل ہے، جو چیزیں میری زندگی کی جلی خبر ہیں، جن باتوں سے میں حظ اٹھا رہی ہوں اور لکھنا چاہتی ہوں وہ صرف میرے لیے اہم ہیں۔ انکو اس بے تحاشا آبادی والی دنیا میں صرف میں یاد رکھنا چاہتی ہوں۔ جن کو سالوں بعد پڑھ کر میں وہی حظ اٹھا سکوں جو پہلی بار میں نے اٹھایا تھا۔ وہی درد محسوس کروں جس نے مجھے پہلی مرتبہ سوچنے پر مجبور کیا۔ اس سبق کو یاد رکھ سکوں جو میں نے آج سیکھا۔ تو اس کا باقی دنیا کے لیے اضافی ہونا ہی اصل مشکل ہے۔ اس کا بے سود ہونا ہی اصل روکاوٹ ہے۔ لکھنے اور نا لکھنے کے درمیاں یہی ہلکی، گہری لکیر کا سرمئی رنگ بھٹکاتا رہتا ہے۔
میرے کانوں میں جو باتیں گونجتی ہیں۔ میری آنکھیں جو تصویریں دیکھتی ہیں ان کو خاموش کرنا اور روکنا میرے بس میں نہیں۔ وہ یاد بن کر مجھ پر پہرہ دیتی رہتی ہیں۔میری یادوں کا مجھ پرپہرہ دار ہونے کا منفی اور تنہا کر دینے والا احساس مجھے بہت کوفت زدہ کرتا ہے۔ اور کبھی لکھنا پناہ بنتے بنتے قید خانہ بن جاتا ہے۔ میرا ہاتھ لفظوں کی خوبصورت قوس قزح کو چھوتے چھوتے کہیں ہوا میں لہرا کر رہ جاتا ہے اور جب میں دوبارہ دیکھوں تو بس سوچوں کی بیڑی باقی رہ جاتی ہے۔ ایسا شائد سب کے ساتھ ہوتا ہے۔