24 مئی 2021

الوداع


 جوش ملیح آبادی
اے ملیح آباد کے رنگیں گلستاں الوداع
الوداع اے سر زمین صبح خنداں الوداع
الوداع اے کشور شیر و شبستاں الوداع
الوداع اے جلوہ گاہ حسن جاناں الوداع
تیرے گھر سے ایک زندہ لاش اٹھ جانے کو ہے
آ گلے مل لیں کہ آواز جرس آنے کو ہے
آ کلیجہ میں تجھے رکھ لوں مرے'قصر سحر
اس کتاب دل کے ہیں اوراق تیرے بام و در
جا رہا ہوں تجھ میں کیا کیا یادگاریں چھوڑ کر
آہ کتنے طور خوابیدہ ہیں تیرے بام پر
روح ہر شب کو نکل کر میرے جسم زار سے
آ کے سر ٹکرائے گی تیرے در و دیوار سے
ہائے کیا کیا نعمتیں مجھ کو ملی تھیں بے بہا
یہ خموشی یہ کھلے میدان یہ ٹھنڈی ہوا
وائے یہ جاں بخش بستاں ہائے یہ رنگیں فضا
مر کے بھی ان کو نہ بھولے گا دل درد آشنا
مست کوئل جب دکن کی وادیوں میں گائے گی
یہ سبک چھاؤں ببولوں کی بہت یاد آئے گی
کل سے کون اس باغ کو رنگیں بنانے آئے گا
کون پھولوں کی ہنسی پر مسکرانے آئے گا
کون اس سبزے کو سوتے سے جگانے آئے گا
کون جاگے گا قمر کے ناز اٹھانے کے لیے
چاندنی راتوں کو زانو پر سلانے کے لیے
آم کے باغوں میں جب برسات ہوگی پر خروش
میری فرقت میں لہو روئے گی چشم مے فروش
رس کی بوندیں جب اڑا دیں گی گلستانوں کے ہوش
کنج رنگیں میں پکاریں گی ہوائیں'جوش جوش
سن کے میرا نام موسم غمزدہ ہو جائے گا
ایک محشر سا گلستاں میں بپا ہو جائے گا
صبح جب اس سمت آئے گی برافگندہ نقاب
آہ کون اس دل کشا میداں میں چھیڑے گا رباب
اس افق پر شب کو جب انگڑائی لے گا ماہتاب
چاندنی کے فرش پر لہرائے گا کس کا شباب
جگمگائے گی چمن میں پنکھڑی کس کے لئے
رنگ برسائے گی ساون کی جھڑی کس کے لئے
گھر سے بے گھر کر رہی ہے آہ فکر روزگار
سرنگوں ہے فرط غیرت سے اب و جد کا وقار
خلعت ماضی ہے جسم زندگی پر تار تار
پھر بھی آنکھوں میں ہے آبائی عمارت کا خمار
شمع خلوت میں ہے روشن تیرگی محفل میں ہے
رخ پے گرد بیکسی شان ریاست دل میں ہے
کوچ کا پیغام لے کر آ گیا مہر منیر
گھر کا گھر ہے وقف ماتم زرد ہیں برنا و پیر
رخصت بلبل سے نالاں ہیں چمن کے ہم صفیر
آ رہی ہے کان میں آواز گویاؔ و بشیرؔ
چھٹ رہا ہے ہات سے دامن ملیح آباد کا
رنگ فق ہے عزت دیرینۂ اجداد کا
کیا بتاؤں دل پھٹا جاتا ہے میرا ہم نشیں
آئیں گے یاں خرمن اجداد کے جب خوشہ چیں
آ کے دروازے پہ جیسے ہی جھکائیں گے جبیں
گھر کا سناٹا سدا دے گا ''یہاں کوئی نہیں''
جود و بخشش کا کلیجہ غرق خوں ہو جائے گا
میرے گھر کا پرچم زر سرنگوں ہو جائے گا
آہ اے دور فلک تیرا نہیں کچھ اعتبار
مٹ کے رہتی ہے ترے جور خزاں سے ہر بہار
نوع انساں کو نہیں تیری ہوائیں سازگار
فکر دنیا اور شاعر تف ہے اے لیل و نہار
موج کوثر وقف ہو اور تشنہ کامی کے لئے
خواجگی رخت سفر باندھے غلامی کے لئے
آ گلے مل لیں خدا حافظ گلستان وطن
اے 'امانی گنج' کے میدان اے جان وطن
الوداع اے لالہ زار و سنبلستان وطن
السلام اے صحبت رنگین یاران وطن
حشر تک رہنے نہ دینا تم دکن کی خاک میں
دفن کرنا اپنے شاعر کو وطن کی خاک میں

-

کوئی تبصرے نہیں: