19 مارچ 2014

بات سے بات نیز ہمارے بلاگ کون پڑھتا ہے؟



میں کچھ بور سی ہو کر کہتی ہوں تم لوگوں کے امتحانات کی وجہ سے کتنا کچھ لکھا نہیں جا رہا۔ جس پر دانت پیس کر میری بچی کہتی ہے امتحانات ہی کی وجہ سے تو کتنا کچھ لکھا جا سکتا ہے۔۔ جس پر میں اعتراض کرتے ہوئے کہتی ہوں یہ صحیح نہیں ہے تم ماں باپ کی تمہارے امتحانات کی فکر کو موضوع نہیں بنا سکتی۔ جس پر وہ آنکھیں گھما کر کہتی ہے وہ ایک تحریر ہی تو ہوگی اس کو پرسنل کیوں لینا۔ جس میں یقینا میری تقریروں کا مضحکہ اڑانے کی کوشش ہے اور تحریروں کا بھی۔ کیونکہ کچھ ہی عرصہ پہلے میں نے وہ نظم لکھی تھی جس کا عنوان تھا ا چائلڈز پلے۔جس کو پڑھ کر میرے بچوں نے کہا یہ بالکل فیٗر نہیں ہے۔ جس پر میں نے کہا یہ شاعری ہے بھائی۔۔ اور شاعری اور ڈائری کو پرسنل نہیں لینا چاہیے۔ پھر بہرحال بات دوسری طرف نکل جاتی ہے اور میں کہتی ہوں اتنا کچھ لکھنے کو ہے تو لکھ ہی لیتے ہیں، کیا خیال ہے روز کی ایک تحریر؟ لیکن کسی نہ کسی طرح میرے بچے بہت حقیقت پسند واقع ہوئے ہیں۔ یعنی وہ کہتی ہے میری زندگی بہت مصروف ہے، ہاں ہفتے کی ایک ہو سکتی ہے۔ جس پر میں کچھ اور بور ہو جاتی ہوں یعنی ایک ہفتے تک کچھ بھی نہ لکھا جائے۔ جس پر وہ ضمناً پوچھتی ہے اب تک آپ نے کتنی تحاریر لکھی ہیں۔ میں کہتی ہوں چند۔۔ جس پر وہ کہتی ہے اتنے سالوں میں بس اتنا ہی لکھا ہے ۔ اتنا تو میں ایک ماہ میں لکھ لیتی۔۔ جس پر میں کہتی ہوں شرط لگا کر ۔ لیکن ہم دونوں ہی جانتے ہیں کہ یہ ممکن نہیں ہے ۔ اپنی اپنی وجوہات سے بھی ہم دونوں واقف ہیں۔۔ اور پھر اس نے اپنا کوئی بلاگ پبلک نہیں کیا ہوا۔ اس خیال پر میں کہتی ہوں تم کم از کم کچھ تحاریر تو پبلش کر سکتی ہو مجھے کتنی خوشی ہوگی۔۔۔ میری پوری کھلی باچھیں دیکھ کر وہ چتون چڑھا لیتی ہے اور کہتی ہے۔۔ آپ بھی باقی لوگوں ہی کی طرح ہو۔ میں کہتی ہوں وہ کیا؟ وہ کہتی ہے شوباز۔۔ میں کہتی ہوں یہ شو نہیں ہے۔ کچھ اور ہے لیکن تم نہیں سمجھو گی۔۔ اور وہ نہیں سمجھ سکتی، اس کا مجھے اس لیے یقین ہے کہ میں خود بھی تو بہت سی باتیں اتنے سالوں بعد ۔اس لمحے ،اس کے چتون چڑھانے پر ۔۔  آج ہی سمجھی ہوں۔  میں نے اس کو فورس کرتی ہوں کہ وہ کہانی سناؤ جو پرچے میں لکھ کر آئی ہو۔۔ اور وہ میری سات پشت پر احسان کرکے پہلا پیرا لکھتی ہے جس کو پڑھ کر میرا تجسس اور بڑھ جاتا ہے کہ آگے کیا ہوا ۔۔۔ اگر یہ کبھی پوری لکھی گئی تو میں "شو" کروں گی۔ ابتدائیہ ہے:

"No!" i yelled in my little sister's face as i grabbed the tiny pink and white stuffed dog. i climbed the stairs with one hand on the railing and the other holding the toy like it was a precious jewel. i marched into my room slamming the door with a THUD. i sat on my striped bedspread thinking about what i just did. Downstairs my sister was crying. "What have i done?" i whispered to myself as if someone would answer.

اورہمارے بلاگ ہمارے علاوہ کون پڑھتا ہے ۔۔اس کے بارے میں مجھے کچھ زیادہ معلوم نہیں اس لیے اس پر علیحدہ سے پوسٹ نہیں بنارہی۔ ویسے تو اس بارے میں ہمیں کبھی بھی حتمی طور پر علم نہیں ہوسکتا سوائے ان چند خاموش ریڈر کے جو ہمیں کافی دن نا لکھنے کے بعد اچانک پوچھتے ہیں 'کہاں ہو؟'۔۔ مجھے اس کا علم فون پر ہوا تھا جب لمبی بات کے بعد اچانک انہوں نے کہا "بیٹا وہ تیرے بلاگ کا کیا ہوا۔ کھلتا ہی نہیں۔۔ میں نے ابھی گیم والا پورا نہیں پڑھا تھا۔۔ اتناااا لمبا لکھا ہوا تھا۔۔۔ ویسے کتنی باتیں کرنی آگئی ہیں تجھ کو۔۔ بہت چالاک ہو گئی ہے۔۔۔" میں اپنی چالاکی پر مشکوک ہو کر سوچ میں پڑ جاتی ہوں پھر کہتی ہوں پتہ نہیں جی۔ چیک کروں گی کیوں نہیں کھل رہا۔۔۔

5 تبصرے:

گمنام کہا...

از نکتہ ور
کوئی اچھا سا وزیٹر کاؤنٹر لگا لیں اپنے بلاگ پر

گمنام کہا...

محترمہ رافعہ

آپ کا بلاگ بہت سنجیدگی سے پڑھا جاتا ہے، اور آپ کی تحریر کا انتظار بھی رہتا ہے-

بہت شکریہ

گمنام کہا...

مندرجہ بالا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

از احمر

گمنام کہا...

اچھا نکتہ ہے

گمنام کہا...

شکریہ جی۔