16 جنوری 2012

سے نو ٹو لائیبریری۔



دسمبر کی اس کہر بھری صبح مجھے آتش فشانی منصوبہ (ہمم۔ پروجیکٹ وولکینو)کی یاد دہانی کرائی گئی۔ گرم گرم چائے کی اٹھتی بھاپ کے پیچھے سے جھانکتے میرے چہرے پر موجود سستی اور سردی کے تاثرات کی حقیقت سے پرانی واقفیت رکھنے کی وجہ سے اس نے خاموشی سے بیڈروم میں جاکر گہری نیند سوتے باپ سے ماہر ہیپناٹائزر کی طرح سکول آنے کا پکا وعدہ لے لیا۔ آہ۔ ان خاموش منصوبہ بندیوں سے مجھے کتنی چڑ ہے۔

احسن کی چھٹی تھی۔ جس کو سکول کی بجائے شاپنگ میں گزارنا زیادہ دلچسپ ہوتا مگر بہرحال۔ چھوٹی کا سکول دیر سے شروع ہوتا ہے۔ سو ہم دونوں (ہم تینوں! ) آتش فشاں پہاڑیاں بنانے کے لیے سکول پہنچ گئے۔ قریبا بیس بچوں کی اس کلاس میں ہمارے اور ایک استانی کے علاوہ پانچ والدین اور بھی موجود تھے جو ذوق شوق سے اخبار کے ٹکرے لئی میں ڈبو ڈبو کر سوڈے کی پلاسٹک بوتل پر چپکاتے بچوں کو اسسٹ کر رہے تھے۔ یعنی ادھر ادھر اڑتے میدے کے چھینٹے صاف کرنا اور لئی سے پیالوں کو دوبارہ بھرنا اور "اوہ سو کیوٹ" کہ کر بیچ بیچ میں فوٹو لیتے جانا۔۔ بننے کے بعد ان پہاڑیوں کو سوکھنا تھا۔ اور پھر ان پر پینٹ ہونا تھا۔ پھر ان میں بیکنگ سوڈا اور صابن وغیرہ بھرا جانا تھا۔ اور پھر آتش فشان پھٹنا تھا۔ لیکن وہ بعد میں ہوگا۔ چھوٹی سارا وقت کونے میں کھڑی ہوکر بڑی جماعت کے بچوں کو گھورتی رہی۔

پارکنگ میں داخل ہونے سے پہلے دونوں اطراف پر کھڑے لوگوں نے ہاتھ ہلا ہلا کر ہمارا استقبال کیا تھا۔ ہم نے مسکراتے ہوئے سر کے اشارے سے ان کا شکریہ ادا کیا۔ اور ہاتھ ہلا کر ہاٹ چاکلیٹ کو منع کیا۔ ہاں۔۔ میں بتانا بھول گئی اس روز قصبے میں سپیشل الیکشن تھا۔ ووٹنگ کے لیے اس سکول کا انتخاب کیا گیا تھا کہ باقی چاروں کی نسبت زیادہ وسط میں تھا اورپارکنگ بڑی تھی۔ حمایت کنندگان سخت سردی میں "سے یس" یا "سے نو" کے بورڈ پکڑے کھڑے تھے۔ ایک عمومی نظر کے جائزے سے ایک گروہ دوسرے سے عمر اور تجربے میں زیادہ دکھ رہا تھا اور جوش اور جذبے میں کم۔ لیکن تجربہ جوش سے جیت گیا۔ لائیبریری کی اس سال توسیع کا منصوبہ دوگنی اکثریت سے رد کردیا گیا۔

میں ووٹ نہیں دیتی۔ کیونکہ سب سے پہلے تو میں یہاں رہتی نہیں۔ نہیں میرا مطلب ہے میں یہاں رہتی تو ہوں لیکن یہاں کی شہری نہیں۔ نہیں میں یہاں کی شہری تو ہوں مگر میں پاکستانی ہوں۔ افوہ۔ میرا مطلب ہے۔۔ بہرحال۔۔ احسن کا خیال ہے کہ کل تنخواہ کا تیس فیصد ٹیکس میں دینے کے بعد انتظامیہ کا فرض بنتا ہے کہ ہر کام سے پہلے وہ ہماری رائے پوچھے اور اس کا احترام کرے۔ چاہے وہ چھ ملین جیسی قلیل رقم سے متعلق ہو۔ ایسے ہی قصبے کے باقی لوگوں کا خیال بھی ہے۔ اوران کا خیال یہ بھی ہے کہ اتنی خراب اکانومی میں کتاب کی عیاشیوں کے لیے قوم کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اور ہزار پر پچیس سینٹ کے حساب سے پراپرٹی ٹیکس کا اضافہ ٹھیک ٹھاک اضافہ ہوتا ہے۔ (سالانہ اسی ڈالر کے قریب !!!) کتاب کی عیاشی کے خاتمے ہی کی وجہ سے پچھلے سال قریبی کتاب کی دوکان بڑھا دی گئی۔ لوگ آجکل بہت سینت سینت کر خرچ کررہے ہیں۔

اور لائیبریری تو پہلے ہی اچھی خاصی ہے۔ موجودہ حالت میں بھی چھ ہزار افراد کی کتابی ضروریات پوری کرنے کی اہل ہے۔۔ اور اگر مطلوبہ کتاب نہ ہو تو آس پاس کی دس لائیبریریوں سے رابطہ کرکے منگوا دیتی ہے۔۔ لیکن پھر بھی اچھی اور بڑی لائیبریری کا مطلب ہے زیادہ کتابیں، اچھے سکول۔ ہاوس مارکیٹ اپ۔ زیادہ پراپرٹی ٹیکس اور قصبے کی ترقی۔ لیکن محصول دہندگان نے مزید ٹیکس کے خلاف رائے دی۔ قصبے میں سالوں سے رہنے والوں کی تنخواہیں ایک مقررہ مقام پر رکی ہوئی ہیں۔ ان کے خرچ طے شدہ ہیں اور اس میں اضافہ ان کی مشکلات میں اضافہ کر سکتا ہے۔ کم ٹیکس، زیادہ لوگ پھر زیادہ پراپرٹی ٹیکس اور قصبے کی ترقی۔

لیکن آپ سمجھ ہی چکے ہوں گے کہ قصبے کی ترقی میرا موضوع نہیں ہے۔ میں تو اس انتظامیہ کی تعریف میں رطب اللسان ہوں جو ہر کام اپنے شہریوں سے پوچھ کر کرتی ہے۔ ان کے پیسے پوچھ پوچھ کر خرچ کرتی ہے۔ مزید پیسے مانگنے سے پہلے بھی پوچھتی ہے۔ کیا اس کی وجہ سردی گرمی کی پرواہ کیے بغیر باہر نکل کر اپنے دیے ہوئے ایک ایک سینٹ کے استعمال سے آگہی اور احتساب کی ہمت رکھنے والے شہری ہیں یا اتفاقاً کچھ ایماندار لوگ منتخب ہوکر بڑے عہدوں پر آگئے ہیں؟؟