01 نومبر 2011

اکتوبر میں برف باری


ویسے تو جون میں اولے بھی پڑتے ہیں۔ اور پاؤ بھر کے اولے گاڑی کی باڈی میں پانچ منٹ میں ان گنت نشان ڈال سکتے ہیں۔ اور تجربے سے ہم نے سیکھا ہے کہ ایسے غیر موسمی اور نامعقول حادثات کے بارے میں تمام معلومات پہلے سے رکھنی چاہییں تاکہ گاڑی کو وقت پر اندر رکھنے اور ایسے ہی کچھ دوسرے ضمنی مسائل کو دھیان میں رکھا جائے۔ لیکن اکتوبر میں برف باری نے پھر ہمیں اور ہمارے لینڈ سکیپ کو بے خبری میں جالیا۔

چار دن پہلے سے بچے "برف گرے گی" کا شور تو مچا رہے تھے بلکہ ایک دن تو کچھ تولہ بھر پڑی بھی تھی۔ گمان غالب تھا کہ کچھ ایسا ہی دوبارہ ہونے والا ہے تو مزید تفصیلات پر غور کرنے کی بجائے پوری تندہی سے عید کے اتوار یا پیر پر ہونے کے بارے میں غور جاری رکھا۔ اور اس کے جلو میں آنے والے کچھ دوسرے زمینی مسائل۔ ۔۔ہفتے کے روز دوپہر میں باہر گھومتے برف گرنی شروع ہوئی تو ہم نے سودا لینے کا ارادہ ترک کر کے گھر کی راہ لی کہ کل دوبارہ آ جائیں گے۔ واپسی پر گھر کے داہنی سمت کے سرخ رنگ کے ہودے پر برف کی ہلکی سی تہ جمی تھی۔۔ "اوہ تو یہ کہ رہے تھے۔ ہاو کیوٹ۔۔ فوٹو لیتے ہیں۔۔ عید کارڈ کے کام آئے گی۔

 لیکن اس بار وہ "بہت خراب موسم" اور آنکھیں پھیلا پھیلا کر کہا گیا "برف باری" واقعی بہت خراب موسم نکلا اور برف باری بھی کیوٹ نہیں بلکہ بارہ انچ سے اٹھائس انچ کے درمیان کہیں تھی۔ سرخ پودا برف باری کے بعد ایسا دکھتا تھا۔ شدید خراب موسم سے بائیس لاکھ سے زیادہ گھرانے متاثر ہوئے سو ہم اکیلے نہیں تھے جن کی چار روز تک بجلی نہیں تھی۔ اور بجلی جانا بھی کون سی نیوز ہے لیکن بس اتنی کہ گھر کا ہر کام بجلی ہی سے ہوتا ہے۔ بجلی کے چولہے، بجلی کے کلاک، بجلی کے فون(اب اس سب کو کون مس کرتا ہے۔۔ خصوصا چولہے کو) لیکن جب درجہ حرارت گرتا ہے تو پانی کے جمنے کا چانس ہوتا ہے۔ تقریبا فروزن پانی سے تیمم بھی کر ہی لیا لیکن اگر پانی سچ میں جم جائے تو گھروں میں پائپ پھٹ جاتے ہیں جس کو دوبارہ بنوانے کے بعد فطرت کے لاابالی پن کو سراہنے کی حس متاثر ہوتی ہے۔

خیر وہ حس تو پانچ ڈگری پر ٹھٹھرنے سے اور مسلسل بازار کی چائے پینے سے بھی متاثر ہوتی ہے۔ اس لیے احسن نے اپنے سائینسی دماغ کے استعمال سے دوسرے دن صبح سب سے پہلے گاڑی سے بجلی پیدا کی ۔(اس کا طریقہ کار کافی سادہ ہے۔۔ گاڑی کی بیٹری سے انورٹر کو جوڑا اور گاڑی کو سٹارٹ رکھا۔ اور انورٹر سے ایک لمبی تار لگا کر گھر میں لائے اور اس سے پیٹر اور ایک لیمپ آن کر دیا۔)

یہ آسان سا طریقہ ہے جو ہمیں پتہ لگا ہے ۔لیکن امید ہے کہ آپ اب یہ نہیں پوچھیں گے کہ گاڑی میں بیٹری کس جگہ ہوتی ہے۔ اور انورٹر کی کونسی سائیڈ بیٹری کی طرف کرنی ہے اور کونسی گھر کی طرف یا مزید یہ کہ ایک مخصوص انورٹر کتنے ایمپس پیدا کرتا ہے اور اس کو کس طرح مختلف چیزوں پر سوئچ کرنا ہے کہ حاصل جمع برابر ہو ان مخصوص ایمپس کے اور اگر نیٹ ان ہوگا تو بلب بند اور اگر واٹر پمپ ان ہوگا تو انٹرنیٹ بند اور وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ احسن کا میتھ ہمیشہ سے اچھا ہے۔۔ ؛ )

ہمیں اس دوران بہت سی اہم معلومات حاصل ہوئیں۔ مثلا:

اس علاقے میں اکتوبر میں برف باری تیس سال سے نہیں ہوئی۔ اور اتنی زیادہ تو شائد اس سے بھی زیادہ عرصے سے۔

برف بھی ہلکی اور بھاری ہوتی ہے۔ ویٹ یا گیلی برف کا بوجھ زیادہ ہوتا ہے۔

اکتوبر میں برف فطرت کے اپنے پلان کے بھی خلاف ہے کیونکہ ابھی درختوں کے پتے نہیں گرے تھے۔۔ خصوصاَ ہمارے درختوں کے جو اس لین میں سب سے آخر میں گرتے ہیں۔ اور گیلی بھاری برف پتوں کی موجودگی سے زیادہ سے زیادہ درختوں پر جمتی ہے اور یہ بوجھ درختوں کو چیر کر رکھ دیتا ہے۔ جگہ جگہ بجلی کے تار اور گھروں پر درخت گرنے سے نقصان کی شدت زیادہ ہے۔ اور ریکوری کا وقت بھی۔  لیکن آج بجلی واپس ہو گئی ہے سڑکیں صاف کی جارہی ہیں۔

کرائسس کے وقت لوگ اکثر اوور ری ایکٹ کرتے ہیں اسی لیے میرے بچے بھی معمول سے زیادہ بور تھے۔ اور ان کو ناشتہ بھی باہر سے چاہیے تھا حلانکہ ٹھنڈے دودھ میں سیریل ڈال کر کھانے میں بجلی کی ضرورت کہاں پڑتی ہے۔ ہاں ہم کو باہر جانا تھا کیونکہ چائے کے لیے بجلی چاہیے۔

خراب موسم میں فاسٹ فوڈ میں چائے لینے والوں کی قظاریں بہت لمبی ہوتی ہیں۔ سو اگر اس والے کیفے میں زیادہ لوگ ہیں تو اگلے والے میں بھی لوگ زیادہ ہی ہوں گے۔

اگر آپ نے پہلے سے جنریٹر نہیں لے کر رکھا تو خراب موسم کے کرائیسس پر بھی کوشش نہ کریں۔ پہلے تو اس کی ذخیرہ اندوزی ہو چکی ہوگی۔ اور نہیں ملے گا۔ اگر ملا تو بہت مہنگا ہوگا۔ بلکہ ایسی کسی بھی چیز ۔۔ لکڑی کا کوئلے کا آتش دان، کیروسین کا چولہا وغیرہ ۔۔کو خریدنے کی کوشش بےکار ہے۔ کیونکہ لوگ پہلے ہی سب خرید چکے ہیں۔ ہاں اگر ایک آخری انورٹر ملے تو جلدی کریں یہ بہت کام کی چیز ہے اور سستی بھی۔

موم بتیوں کی بجائے ری چارچ ایبل ٹارچ بچوں کے لیے زیادہ محفوظ ہے۔ لیکن اس کو وہ ایک دوسرے کی آنکھوں میں ڈالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اس کو دھیان میں رکھنا چاہیے اور اگر ان کو ری چارج کرنے کی جگہ نہیں تو فائر سٹیشن کوشش کی جا سکتی ہے یا پھر سینت سینت کر خرچ کیا جائے۔

باربی کیو گرل پر چائے بن جاتی ہے ۔۔ لیکن اس کے لیے پتی ضروری ہے۔ اور جب پتی خریدنے جائیں تو کچھ دیسی کھانا بھی خرید لیں کیونکہ ہو سکتا ہے بچوں کا چیز پزا اتنے مزے کا نا ہو۔ اور چائے بننے کے دوران اسی گرل پر کھانا بھی گرم ہو جاتا ہے۔  ہیٹر کے سامنے بیٹھ کر باہر کا گرم گرم کھانا کھاتے ہوئے ہم عموما سوچتے ہیں ہوٹل کا کرایہ بچا کر بھی ویکیشن کتنی مہنگی ہوتی ہیں۔۔۔

جہاں تک لینڈ سکیپ کا تعلق ہے تو ہمارے گھر کے سامنے کچھ درخت لگے ہیں۔ ان میں سے تین کہ چیری بلاسم کے ہیں۔ بہار میں بہت خوبصورت پھول لاتے اور ان کو دیکھ دیکھ کر آنکھوں میں تازگی بھرتی۔ پرسوں تک ان کے پتے نہیں جھڑے تھے اور وہ اتنے سبز تھے کہ خزاں یا جاڑے کی رمق تک ان میں نہ ملتی تھی۔ کتنا الگ سماں ہے۔ حیران کن۔ اور قدرت نے یہ بے مثال درخت شائد صرف اس آنگن کے لیے اگائے ہیں ( یہ الفاظ تو نہیں لیکن کچھ ایسا ہی تاثر تھا شائد۔۔ : ))) اور ہم نے ماشاءاللہ نہیں کہا۔ کہ تمام شان اللہ ہی کی ہے ۔اور وہ آفات میں گھر گئے اور زمین بوس ہوئے۔ اگلے دن ہم ان کو آنکھ مل مل کر دیکھتے تھے۔ مگر وہاں ان ٹوٹی پھوٹی شاخوں کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ ۔ اول مالک آخر مالک۔

5 تبصرے:

افتخار اجمل بھوپال کہا...

بی بی ۔ واہ چھاؤنی ۔ ٹيکسلا ۔ سنگ جانی اور ترنول ميں اپريل 1984ء ميں اچھی خاصی برف باری ہوئی تھی ترنول اسلام آباد اور راولپنڈی سے 20 کلو ميٹر اور واہ چھاؤنی 40 کلو ميٹر ہے باقی درميان ميں
آپ نے يہ تو بتايا ہی نہيں کہ آپ پائی کس علاقہ ميں جاتی ہيں ؟
انورٹر کا لوگوں کو عِلم ہونا چاہيئے يو پی ايس عام استعمال ہو رہے ہيں

Anonymous کہا...

یہ کون سا دیار ہے؟
علی

فریدون کہا...

عمدہ تحریر ھے۔ ویسے آپ کی ادق تشبیہات اور چیستاں استعارے میری حقیر سی سمجھدانی میں کم کم ھی سمایا کرتے ھیں، بہرحال مجھ ایسے بے لغتے بےتوفیقوں کو بھی اس بار یہ تو سمجھ آ گیا کہ تحریر ۱۔ برف سے متعلق ھے، ۲۔ اکتوبر بھی کہیں نا کہیں در آئے گا۔ اللہ کرے زورِ قلم۔۔۔۔۔۔ ھاں۔ آپ کا انداز اب پھیل رھا ھے، ناول نگاری کی طرف توجہ کیجئیے

اچھا سنئیے! شرقِ سواحل ریاست ھائے متحدہ میں برفکدہ کھلنے کی خبریں ھیں۔ اگر یہ مضمون اسی سے متعلقہ ھے تو سنا ھے بجلی بیگم بھی روٹھ کر میکے جا بیٹھی ھیں۔ شتابی سے بدنی میں کوئلے دہکا کر لحاف میں گھسئیے۔ بشرطِ زندگی نئی تحریر اور ان آرا کے جواب بھی لکھے جائیں گے

رافعہ خان کہا...

آپ سب کی تشریف آووری کا شکریہ
جی افتخار صاحب اس جگہ پر بھی انہی دنوں میں بتایا گیا ہے۔ اسی کے آس پاس۔
میں یو ایس میں ہوں اور وہیں کی فوٹو ہے۔

اور فریدوں جی آپ کی کسرنفسی سے ہم واقف ہیں۔۔ مزید لکھنے کے لیے زندگی کے ساتھ ساتھ فرصت کی بھی شرط ہوتی ہے۔

احمد عرفان شفقت کہا...

ایک اور مزیدار تحریر۔ شکریہ