27 نومبر 2011

کوہان تو ہوگا۔۔۔



چائے پکنے میں کچھ ہی لمحے ہیں۔ ایسی پارٹیز میں عموما چائے خوب گاڑھی، تیز دودھ پتی پسند کی جاتی ہے۔ میں آ جمائے کھڑی ہوں۔ آج میں کوئی بھی غلطی نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ غلط ہوتا ہی جارہا ہے۔ "میں کچھ سوچنا نہیں چاہتی۔ کچھ لکھنا نہیں چاہتی، کچھ بولنا نہیں چاہتی۔۔" میں منہ ہی منہ میں خود کو مسلسل یاد دہانی کراتی جا رہی ہوں۔ بیٹھک سے روانی سےایک کے بعد ایک تازہ ترین خبروں کو آنکا جا رہا ہے۔۔ گول کمرے میں ڈرامے، کپڑے اور لوگ زیر بحث ہیں۔ لیکن میں دور ہی دور سے مسکرا کر اپنے شامل ہونے کا یقین دلا رہی ہوں۔۔" میں کچھ سوچنا نہیں چاہتی۔۔" میں نے دہرایا۔

بچے جرابوں کے بل پر ادھر سے ادھر پھسل رہے ہیں۔ اوپر نیچے دوڑ رہے ہیں۔ میں نے چند لمحے پہلے تشدد کی زیادتی کا بہانہ بنا کر سٹاروارز بند کردی تھی جس نے مختلف عمروں کے بچوں کو ایک ہی کمرے میں باندھا ہوا تھا۔ شور سے گھبرا کر میں نے دوبارہ ٹی وی آن کرکے کارٹون چینل میں ٹام اینڈ جیری لگا دیا۔ صرف کردار بدلے ہیں۔

چائے کی خوشبو اچھی لگ رہی ہے۔ لیکن یہ لپٹن نہیں ہے۔ میں دو کوس دور جا کر دو پیسے زیادہ دے کر پاکستانی یا مسلمان دکان سے سودا لانے کی کوشش کرتی ہوں لیکن وہ دو پیسے کبھی پاکستانی یا مسلمان کا نفع نہیں بنتے۔ میرے جانے پہچانے برانڈ وہاں ہوتے ہی نہیں۔ "ان کی مارکیٹ نہیں ہے۔۔" اکثر معلوم ہوتا ہے۔ "لیکن یہ برانڈ۔۔ "میں حلیم کے لیے دال ہاتھ میں لے کر بحث کرنے کا وقت نہ ہوتے ہوئے بھی سوال کر گئی تھی۔۔ "ارے بھئی دال تو دال ہے ، برانڈ جو بھی ہو۔" وہ کافی سیانی دوکاندار ہیں ۔۔ یہی دلیل انہوں نے پچھلی بار اردو کے مختلف نام کے بھی دی تھی۔۔"اردو تو اردو ہی رہے گی خواہ کوئی اسے ریختہ کہے یا ہندی۔۔" میں نظر چرا گئی تھی۔۔

سوال اب عمرانی یا سماجی نہیں رہا۔۔ اس محاذ پر فتح کا جھنڈا لہرائے تو کم و بیش تین عشرے بیت چکے ہیں۔ سوال اب خالص معاشیات کا ہے۔ سوال غربت کی اس انتہائی لکیر کا ہے جو ہمارے ملک میں اب بھی موجود نہیں۔ سوال سستے مزدوروں کا ہے۔ لیکن سوال کرنے کا میرے پاس وقت نہیں ہے یا حق ۔ اس پر میں ابھی نہیں سوچ سکتی۔۔

میں اس راستے سے بہت دور ہوں جہاں لوگ اپنی آپشنز اوپن ہونے پر خوش ہیں۔ ان کے سینما اب فنون لطیفہ کے نئے رنگین افق کی جانب نظر جمائے کھڑے ہیں اور کپڑوں، ڈراموں کی نئی کھیپ کی تیاری بھی سامنے ہوگی۔ لیکن مجھے نہ جانے کیوں لگتا ہے کہ اس خوشحالی سے راستوں کو کبھی فائدہ نہیں ہوتا۔ راستے تو بس راندہ، درماندہ اور پائمال ہوتے ہیں۔ راستے منزل نہٰں بنتے۔ ہاں سڑکوں کے ساتھ ساتھ بنے ایک رات کے موٹل، سفری بیت الخلاء اور چائے خانے، ٹرکوں کی سروس کے اڈے ایسے کاروبار پھلنے پھولنے کی ایک امید بھی ہے۔ اگر میکڈونلڈ والوں نے اس کا ٹھیکا پہلے سے نہ لے لیا۔۔ افوہ چائے ابلنے کو تھی۔۔ بچت ہو گئی

"ارے تم نے کچھ بات وات نہیں کی آج ۔۔" کسی نے شفقت سے ہاتھ میرے کندھے پر دھرا۔۔ "کچھ بولو تم بھی اس بارے میں۔۔"

"میں ۔۔ میں بھلا کیا بولوں؟؟" میں نے دل ہی دل میں دہرایا۔۔ کچھ نہیں بولنا ، کچھ نہیں سوچنا۔۔
"کچھ تو بولو۔ تبدیلی کے بارے میں کچھ کہو۔۔"
"میں کچھ کہوں تو مگر۔۔۔"
"مگر کیا؟؟؟"
"وہ ۔۔کوہان کا ڈر ہے۔۔"

ان کی شفقت بھری آواز اچانک بارعب ہوگئی۔۔ "کوہان کا ڈر ہے؟؟
دو ہزار سال کی لکھی اور  ہزاروں سال کی زبانی تاریخ نے بولنے والوں کو ایک بات ازبر کرادی ہے۔۔
 اپنے حق کے لیے تم جب بھی بولو گے۔۔ کوہان تو ہوگا۔"

4 تبصرے:

افتخار اجمل بھوپال کہا...

دنيا ميں کہيں بھی چلی جايئے قصہ ايک ہی ہے ۔ الفاظ مختلف ہيں ۔ انداز جدا جدا ہيں ۔ يہ اثر ہے سامراج کی حکمرانی کا جو ہر جگہ بدرجہ اتم موجود ہے ۔ اسی لئے سود لينا ديان اللہ سے جنگ قرار ديا گيا ہے اور ذجيرہ اندوزی جُرم

فریدون کہا...

وہی نا

عادل بھیا کہا...

جب بھی آپکے بلاگ کا چکر لگتا ہے، آپکا انداز تحریر نہایت پسند آتا ہے لیکن آپکے بلاگ کی ٹریفک دیکھ کر کچھ دُکھ سا ہوتا ہے۔ آپکو اِس مقصد کیلئے اقدام اُٹھانے چاہئیے۔ مجھ سمیت تمام اُردو بلاگرز اِس میں آپکی رہنمائی کر سکتے ہیں۔

amnasurdu کہا...

ہمیشہ کی طرح عمدہ تحریر۔۔۔۔ اور بلاگ کا انداز بھی منفرد۔۔۔۔۔دیکھ کر خوشی ہوئی