21 اکتوبر 2011

فئیر ویدر۔۔

چھوٹی کو سکول لے کر جانے کے دو راستے ہیں۔ چار بار ایک ہی راستے سے گزرنے کے عمل کی تکرار اور بوریت کو کم کرنے کے لیے میں انہی دو راستوں کو بدل بدل کر استعمال کرتی ہوں۔ پہلا راستہ چھ منٹ کی ڈرائیو، چار سگنل اور ٹریفک ملا جلا کر دس منٹ تک سکول تک پہنچاتا ہے۔ اندر کا راستہ بھی دس ہی منٹ تک پہنچاتا ہےلیکن اس میں سگنل نہیں ہیں۔ اکثر وہ سڑکیں بالکل خالی ہوتی ہیں۔ میرا مطلب ہے تقریبا ً بالکل خالی۔ اگر ہم جگہ جگہ رکے مختلف قسم کے ٹرکوں ، ڈاک کی آہستہ خرام گاڑیوں اور سڑک کی اطراف میں پیدل چلتے لوگوں کو نظر انداز کر دیں جن سے بچ کر چلنے کے لیے مجھے اپنی رفتار کو کافی کم کرنا پڑتا ہے۔


لیکن میری دوسرے راستے سے دوستی ہو گئی ہے۔ باہر کی سیدھی سڑک کے برعکس یہ ایک پرپیچ راستہ ہے۔ اپنی دریافت کے شروع میں غائب الدماغی کے باعث کئی بار میں غلط موڑ مڑ گئی۔ وہ ایک اچھا تجربہ نہیں تھا۔ اس لیے میں اب ہمیشہ اپنا برقی نقشہ سامنے رکھتی ہوں۔ بہرحال درمیان میں چھ منٹ کی ایک حصہ ہے۔ بالکل خالی۔ میرا مطلب ہے واقعی خالی۔ یہ ایک کم چوڑی سڑک ہے۔ جہاں دو گاڑیاں پہلو بہ پہلو چلیں تو اپنی رفتار احتیاطاً بالکل کم کر لیتی ہیں۔ لیکن نوے فیصد وہاں دو گاڑیاں پہلو بہ پہلو نہیں ہوتیں۔

وہاں ایک خاموشی اور خوبصورتی ہے۔ بند گاڑی میں اونچی آواز میں سی ڈی آن ہونے کے باوجود وہ خاموشی میرے وجود میں اتر جاتی ہے۔ وہ خوبصورتی مجھے اندر کہیں چھو لیتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے رنگ برنگے پرندے اکثر چھوٹی ڈالوں پر چہچہاتے نظر آتے ہیں۔ گلہریاں اتنی بے فکری سے پھدکتی راستے ایک سرے سے دوسرے سرے تک جاتی ہیں جیسے وہاں خطرے کا کبھی گذر نہ ہوا ہو۔ کچھ روز پہلے تک وہ راستہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک سبز تھا۔ لیکن سپاٹ سبز رنگ کی طرح نہیں۔ بلکہ سبز کا ہر ممکن شیڈ مختلف درختوں، پودوں اور جھاڑیوں کی صورت میں دونوں طرف سے سڑک پر جھک آیا تھا۔ اور ستمبر کی تیز چمکیلی دھوپ ایسے پتوں سے چھن چھن کرسڑک پراترتی جیسے سایوں کوچھپن چھپائی کھیلنے پر اکسا رہی ہو۔

لیکن آپکو اس راستے کو بارش میں بھی دیکھنا چاہیے۔ ہلکی پھوار ہر سبز کو ایک دوسرا سبز بنا دیتی ہے۔ زمردی۔نکھرے پتے اور جھاڑیاں ایک تاثر بناتے ہیں۔ لمبے اونچے درختوں کا کاہی اور سفید سے مل کر ایک تاثر بناتے ہیں۔ میرے دونوں طرف چھاوں کیے درختوں میں ایک تروتازہ سا اندھیرا ہو جاتاہے۔ اور پورا ماحول ہرے رنگ کی گیلی گیلی پینٹنگ بن جاتا ہے جسے فطرت نے سوکھنے کے لیے ٹانگا ہو۔ ایسی بہت سی تصویریں ہم ویب پر دیکھتے ہیں۔ لیکن وہ صرف ایک تصویر نہیں ہے وہ ایک کیفیت ہے اسی لیے میں نے کیمرے کی بجائے لفظوں میں اسے پکڑنے کی کوشش کی ہے۔

اس ماہ کے شروع میں خزا ں نے سب رنگ بدل دیے تھے۔ خوبصورتی میں کئی گنا اضافے کے ساتھ زمردی آرائیشیں سرخ، پیلے اور بھورے رنگوں میں ڈھل گئی ہیں۔ کچھ درختوں سے باریک باریک پیلے تنکے گر گر راستے کے دونوں جانب زرد وز حاشیہ بن گیا ہے۔ ہوا اپنے تیز اور ہلکے ہلکوروں میں پتوں کو ادھر سے گذرنے والوں پر برساتی ہے۔ یا وارتی ہے۔ ہوا کا جو بھی مفہوم ہے، دلپذیر ہے۔ قدم روک لینے والا۔ سانس روک دینے والا۔

مجھے لگتا کئی بار میری آنکھ جھپک جاتی ، گاڑی اور میں کہیں دور رہ جاتے ۔ اور میں اس ماحول میں مدغم ہوکر اس خاموشی اور خوبصورتی کا ایک حصہ بن جاتی ، لیکن میں جتنا بھی آہستہ چلوں چھ منٹ ختم ہو جاتے جہاں سے مجھے سب کچھ پیچھے چھوڑ کراگلا موڑ مڑنا ہوتا ۔ میں دوبارہ ادھر ہی سے گزروں گی، میں خود کو بہلا لیتی۔

اب درختوں سے پتے گر گر کر آسمان کے جھانکنے کے لیےراہ بنا رہے ہیں۔ درختوں کی سوکھی شاخیں ایک نیا رنگ پکڑ رہی ہیں۔ خاکستری، بھورا اور سلیٹی۔ تصویر کا نیا رخ نئے انداز سے لبھاتا ہے۔ لیکن اب بارشوں کا زور ہے۔ وہ اونچی نیچی سڑک اور آڑے ترچھے موڑ پھسلن زدہ ہو جاتے ہیں۔ بادل زیادہ گہرے ہوں تو وہاں بالکل اندھیرا ہوجاتا ہے۔موسم طوفانی ہو تو کسی کمزور شاخ کا سڑک پر گرے ہونے کا بھی امکان ہے۔ ایسی مشکل میں مدد ملنے کے امکانات سیدھی بڑی سڑک کی نسبت نوے فیصد کم ہیں۔ ہر بار ادھر مڑنے سے پہلے میں رسک انیلسز کرتی ہوں۔ برقی نقشہ بند کرتی ہوں اور بڑی سڑک پر مڑ جاتی ہوں۔

3 تبصرے:

افتخار اجمل بھوپال کہا...

واہ جی واہ ۔ آپ نے تو حقيقت کو ايک خوابی دُنيا ميں پہنچا ديا
اتفاق سے مجھے ايسے راستے پسند رہے ہيں جو کبھی اسلام آباد ميں ہوا کرتے تھے ۔ بھلا ہو ہمارے حکمرانوں کا جنہوں نے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ہم سے يہ قدرتی حُسن چھين کر وہاں غيرضروری بلند عمارتوں اور سڑکوں کو بچھا ديا اور اس طرح اسلام آباد کا ماسٹر پلان تباہ ہو کر رہ گيا ہے

shahfaisal کہا...

I guess its my first visit, and I am impressed.
Keep it up and all the best.

احمد عرفان شفقت کہا...

یہ تحریر مجھے بہت خوبصورت لگی ہے