02 اگست 2011

انسپیریشن



کوئی کوئی دن ہماری زندگی میں ایسے آتا ہے کہ ہمیں دنیا اپنے قدموں کے نیچے محسوس ہوتی ہے۔ روزمرہ کی چیزیں ہمارے ہاتھوں میں کھیل رہی ہوتی ہیں۔ ہم اپنے چھوٹے سے دائرے کے شہنشاہ ہوتے ہیں۔ اور سبھی کچھ دست بستہ ہمارے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔  ایسے محسوسات کا مآخذ کیا ہوتا ہے۔۔ کوئی چھوٹی سی پوری ہوئی خواہش، کوئی اچھا سا خواب، کوئی مدھر سا گیت۔ وجہ کچھ بھی ہو۔ یہ بہت کارساز لمحات ہوتے ہیں۔  ہم جیسے چاہیں اس دن کو بنا لیں۔ کچھ بہتر، کچھ اچھا۔ ایسے کسی لمحے کو پکڑ لینا اور ضائع نہ ہونے دینا چاہیے۔

ایسا ہی کچھ لکھاری کے ساتھ ہوتا ہے۔ کبھی کبھی لفظ اور خیالات ہمارے بہت قریب آ جاتے ہیں۔ ایک ہاتھ کے فاصلے پر۔ اور بالکل موم کی طرح ہمارے ہاتھوں، دماغ اور زبان پر بنت کے متلاشی ہوتے ہیں۔ جیسے چاہیں ان کو ڈھال لیں۔ شائد اسی کو انسپیریشن کہتے ہیں۔ لفظ جب ہاتھوں میں پگھلتے ہیں تو موم نہیں رہتے، آب زر بن جاتے ہیں۔ ان لمحوں کی کہانی جب اپنی طرف کھینچتی ہے تو لوٹنے کا کوئی محل نہیں ہوتا۔۔ پر زندگی اپنے موقع محل خود بناتی ہے۔۔ جگہ جگہ رک کر لفظوں کو خیالات کی ڈگڈگی سے تال ملاتے دیکھنے کی اجازت ہی نہیں دیتی۔

1 تبصرہ:

افتخار اجمل بھوپال کہا...

آپ کا نام اپنے بلاگ کے تبصرہ کے خانہ ميں ديکھا تو اپنی يہ کمزوری سامنے آئی ۔ کافی دنوں بعد آپ کے بلاگ پر آيا ہون ۔ آپ نے انسپيريشن کی بات کی ہے ۔ دراصل زندگی ميں کبھی ايسا لمحہ آتا ہے کہ آدمی کا رُخ ہی بدل جاتا ہے ۔ يہ لمحہ جسے نصيب ہو جائے وہ خوش نصيب ہوتا ہے يا ۔ ۔ ۔ ميری زندگی ميں ايسے کئی لمحات آئے اور ہر بار ميرا رَخ موڑ ديا ۔ اسی لئے ميں اپنے آپ کو خانہ بدوش کہا کرتا ہوں ۔
28 ستمبر 2010ء کو موٹر سائيکلسٹ کا مجھے ٹکر مارنا ميری کئی خصوصيات لے گيا ۔ ميری ياد داشت ۔ ميرا چلبلا پن جو دماغی اور جسمانی صحت کے باعث تھا ۔ يہی کم نہ تھا کہ بيوی کارڈِيئک ارِتھ مِياز ميں مبتلا ہو گئی ہے ۔ اللہ کريم سب پر اپنا روحم و کرم فرمائے