09 اگست 2011

یوٹوپیا



خیال حقیقت کا پیراہن پہننے سے پہلے کسی ذہن میں پنپتا ہے۔ خواب شرمندہ تعبیر ہونے سے قبل آنکھوں میں بستا ہے۔ اہرام مصر ہو یا دیوار چین، ہر تعمیر چند لکیروں سے اٹھتی ہے۔ ہر عمل کی ایک راہ عمل ہوتی ہے۔ تبدیلی پہلے دلوں میں پنپتی ہے، پھر لفظوں میں نفوذ پذیر ہوتی ہے اور خوشبو کی طرح پھیل جاتی ہے۔

بدلاؤ کی خواہش پہلی کڑی ہے۔ تبدیلی کا خیال ابتدا ہے۔ تبدیلی نہ لا سکنا کسی کی ہار نہیں ہوتی۔ اس کا تصور گم کر دینا اس کا خیال نہ آ سکنا اصل شکست ہے۔ ظالم سے لڑ نہ پانا کمزوری ہے تو ظلم سہتے رہنا اور بچاو کے لیے ہاتھ تک نہ اٹھانا بڑی کمزوری ہے۔ ہاتھ نہ اٹھا پانے کی سکت کھو دینے سے بھی زیادہ خطرناک ہے ظالم سے چھٹکارا پانے کی خواہش سے تہی دست ہو جانا۔

جب تم نہ لڑ سکو۔ نہ ہاتھ اٹھا سکو۔ نہ چیخ سکو تو ایک خواب بن دو۔ اسکو لفظ اوڑھا دو۔ لفظ جب لفظوں سے ملتے ہیں تو ہاتھ بن کر لڑتے ہیں۔ پھر یہ آنکھ در آنکھ پھیلتے ہیں۔ زبان در زبان چیختے ہیں۔ سادہ کاغذ پر لکھا ایک سراب اہم ہے۔۔ ایک بلو پرنٹ۔ جب راہ گم ہو جائے تو سراب میں زندگی جاگتی ہے۔ خواہ چند سانس ہی ہو۔ اور پھر کس کو معلوم منزل چند سانس ہی دور ہو۔

3 تبصرے:

عادل بھیا کہا...

واہ آجکل بڑی مختصر پُر اثر پوسٹس پبلش کی جارہی ہیں۔ بہت خوب لکھتی ہیں آپ۔ پڑھ کر مزہ آتا ہے۔

آپ لکھتی بہت اچھا ہیں لیکن آپکے بلاگ پر وزٹرز کی تعداد کافی کم ہے۔ اِسکو بڑھانے کیلئے تدابیر اختیار کیجئیے

جہالستان سے جاہل اور سنکی ۔ کہا...

انسان یوٹوپیا سے کسی بھی دور میں دور نہیں رہا ۔ ڈوسائل ( ڈی او سی آئی ایل ای ) انسان بننے یا ڈوسائل انسان پروڈیوس کرنے کی خواہش انسان کو یوٹوپیا سے دور لے جاتی ہے ۔ امکانات کافی ہیں کے ہماری اور آپکی یوٹوپیا کے بارے میں ڈیفینیشن اور انڈرسٹینڈنگ مختلف ہو ۔

رافعہ خان کہا...

ممکن ہے مختلف ہو۔ کہ ڈوسائل اور بے عمل کو بھی ہم مختلف زمروں میں رکھتے ہیں۔ لیکن اس سے اتفاق کریں گے کہ افکار اعمال کے بنا بیکار اور اعمال افکار کے بنا محال ہوتے ہیں۔