24 مئی 2011

کمیونیکیشن گیپ

ویسے تو جس ساحلی علاقے میں میں مقیم ہوں درختوں کی کثرت کی وجہ سے حبس زدہ گرم دنوں میں یہ عام سی بات ہے۔۔ سانس کا لمحے دو لمحے کے لیے رک جانا۔ لیکن بات وہ نہیں ہے ۔۔ گرم دن ابھی شروع نہیں ہوئے۔ بات اصل میں کیا ہے مجھے سمجھ نہیں آیا۔

آج میرے بیٹے کو گولڈ میڈل ملنا تھا۔ یہاں جس جگہ میں رہتی ہوں ہر موقع کو ایک بڑا موقع بنا لیتے ہیں۔ خود ہی سٹیج سجاتے ہیں، ایک دوسرے کی مدد سے انعامات اکھٹے کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو بانٹ دیتے ہیں۔ اس سب کو وہ حوصلہ افزائی کہتے ہیں۔۔ کردار سازی کا کام۔

بس ایسی ہی کچھ زندگی ہے یہاں کی۔ ایک بات کی پڑتال کی۔ نتائج اخذ کیے پھر اپنی زندگیوں کو اس کے گرد بن لیا۔ اگر نتائج غلط ثابت ہوں تو اسے پیچھے چھوڑ کر کسی نئے مرکزی خیال کو جینا شروع کر دیا۔ ایسے میں کبھی پلٹ کر وہیں پہنچ جاتے ہیں جہاں سے سفر شروع ہوا تھا۔ اس کو وہ زندگی کے تجربے کا نام دیتے ہیں۔


اپڈیٹ: 

یہ تحرير اور دوسرے افسانے پڑھنے کے لیے ذیل کی پوسٹ میں کتاب کا ڈاؤنلوڈ لنک دیکھیں ۔

_______________


پرانے افسانے

رافعہ خان


11 تبصرے:

شازل کہا...

جزبات کی اچھی ترجمانی ہے

احمد عرفان شفقت کہا...

طویل تحریر پڑھنا عموماً اکتاہٹ کاموجب ہوتا ہے لیکن یہ تحریر میں نے بنا رکے آخر تک پڑھی۔ ساتھ میں یہی سوچتا رہا لوگ اتنا اچھا کیسے لکھ لیتے ہیں۔ واقعی لکھنے والے نے انسانی رویوں اور احساسات کی کمال عکاسی کی ہے۔

حجاب کہا...

دوڑتی بھاگتی مصروف زندگی میں اگر کوئی اکثر ملنے والا شخص کچھ دن نظر نہ آئے تو یہی خیال ہوتا ہے مصروفیت ہوگی اور ہم بھی پوچھنے کی زحمت نہیں کرتے ظاہر ہے مصروف جو ہوئے یہی آپ کے ساتھ ہوا ۔۔۔ اچھا انداز ہے لکھنے کا ۔۔

Abdullah کہا...

یہ بے حسی اب ہماری زندگیوں کا حصہ بنتی جارہی ہے،نہ چاہنے کےباوجود،
نہ جانے کیوں؟؟؟؟؟؟؟؟؟

Abdullah کہا...

شائد اس لیئے کہ دین اب ضابطہ حیات نہیں دکھاوا بن کر رہ گیا ہے
:(

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین کہا...

آپ کو غالبا پہلی دفعہ پڑھا ہے۔ آپ کا لکھنے کا انداز بہت خوب ہے۔

مرنے والے کو اللہ تعالٰی جنت الفردوس میں جگہ دے اور پاکستان میں دہماکوں میں بوٹی بوٹی ہونے والوں کا غم جب انکے اپنے حکمرانوں اور عالم انسانیت کے عالمی ٹھیکدار کو نہیں تو آپ بھی انکا معاملہ اللہ پہ چھوڑ دیں۔

کیا کوئی صدا اس دنیا میں رہا ہے؟ کوئی آج گیا ہے اور کوئی چند سالوں تک جائے گا۔ بس اتنا فرق ہے جس پہ حضرت انسان اکڑتا پھرتا ہے۔

چلیں جنہیں نائن الیون میں اپنے مارے جانے والے پیاروں کا اسقدر غم ہیں کہ انھوں نے ناحق ساری دنیا میں آگ لگا رکھی ہے اور معصوم جانوں کی خون کی ندیاں بہا رہے ہیں۔ کیا یہ انصاف ہے۔ یہ انصاف، انصاف کے کونسے پیمانے پہ پورا اترتا ہے؟
پتہ نہیں یہ کس ضمیر سے خدا کے سامنے پیش ہوتے ہونگے؟۔ یہ چرچ بھی جاتے ہیں اور سروس میں بھی حصہ لیتے ہونگے اور سمجھتے ہیں کہ نائن الیون میں ناحق مارے گئے ہر فرد کے مقابلے پہ سینکڑوں مظلوم اور معصوم جانوں کی ہلاکت ان کے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتی اور وہ سمجھتے ہیں کہ انھہوں نے اپنا فریضہ ادا کر دیا ہے۔۔

مگر جن کے لوگ متواتر مر رہے ہیں کیا وہ کسی کے بھائی بیٹے نہیں؟

کیا ان بودے حکماروں کو یہ بھی احساس نہیں کہ ایک دن اس ہستی کے سامنے انھیں پیش ہونا ہے۔

آج کسی کا باپ گیا ہے تو کل اسے بھی جانا ہے یہ قانون قدرت ہے۔ پھر وہاں پہ کیا منہ لے کر جائیں گے؟ وہاں کیا جواب دیں گے؟۔

افتخار اجمل بھوپال کہا...

جس قوم ميں فکر و عمل مٹ جائے وہ مردہ کہلاتی ہے
پتہ نہيں ہم قوم بھی ہيں يا نہيں بہر حال فرض کر ليتے ہيں کہ قوم ہيں
فکر مطالعہ سے نشو و نما پاتا ہے اور عمل ارادے کا محتاج ہوتا ہے ۔ ميرے ہموطنوں کی اکثريت ان دونوں خوبيوں کو شايد پرانے وقتوں کی باتيں سمجھ کر بيان بازی اور اور ٹھٹھہ کو اپنا چکے ہيں
اللہ کسی کو خود ہاتھ پکڑ کر درست راستے پر نہيں دالتا ۔ اس کيلئے خود آدمی ہی کو کوشش کرنا ہوتی ہے

عین لام میم کہا...

پہلی دفعہ اس بلاگ پہ آنا ہوا۔۔۔ تحریر تھوڑی طویل لیکن اچھی تھی اور جس طرح آپ نے لکھا ہے، بہت خوب۔

Dr Jawwad Khan کہا...

بہت خوب ...اچھا لگا آپکی تحریر پڑھ کر ...لیکن سانس کا روکنا کوئی اچھی بات نہیں ہے چاہے روزانہ ایک آدھی سیکنڈ کے لئے ہی کیوں نہ رکے . یہ دل کی دھڑکن کی بے ترتیبی کو ظاہر کرتی ہے اسکے علاوہ سانس کی نالی میں تنگی کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے. اگر واقعی میں ایسی کوئی شکایت ہے ڈاکٹر سے ایک بار مشورہ ضرور لے لیجئے گا.

عادل بھیا کہا...

بہت خوب۔۔۔ آپکی پچھلی تحریر بھی کُچھ طویل ہونے کے باوجود پڑھ کر مزہ آیا اور یہی حال اس مرتبہ بھی۔ بہت عمدہ لکھ لیتی ہیں آپ ماشاءاللہ۔

عمران اقبال کہا...

رافعہ بی بی۔۔۔

کچھ قارئین نے اپنے تبصروں میں فرمایا ہے کہ طویل تحاریر اکثر اکتاہٹ کا باعث بن جاتی ہیں۔۔۔ لیکن آپ کی اس تحریر نے بلکل بور نہیں ہونے دیا۔۔۔

پہلی دفعہ آپ کے بلاگ پر آیا ہوں۔۔۔ اور کچھ نیا، تازہ اور اچھا پڑھنے کو ملا ہے۔۔۔

آج کے مصنوعی دور میں ہم آج کل اپنے ہمسایوں تک سے واقف نہیں ہیں۔۔۔ دنیا داری کا نام تو ہے لیکن دنیا داری بھی صحیح طرح نہیں نبھا پا رہے۔۔۔ فیس بک کی دوستی کو "دوستی" سمجھ بیٹھنے کی بھول کر چکے ہیں۔۔۔

آج کب ایسا ہوتا ہے کہ ہم اپنے ہمسایوں کے گھر کھانا بھیجیں۔۔۔ اپنے ہمسایوں کی بیماری یا تکلیف کے وقت ساتھ کھڑے ہوں۔۔۔ بہت کم۔۔۔ بہت کم ہوتا ہے ایسا۔۔۔

خیر۔۔۔ آپ کو بہت مبارک ہو کہ اللہ نے آپ کو اپنے جذبات کو خوبصورت الفاظ دینے کی صلاحیت عطا فرمائی ہے۔۔۔

امید ہے کہ ایسا ہی اچھا پڑھنے کو ملتا رہے گا۔۔۔