16 نومبر 2010

سب سے اچھا بچہ

جب میں رات میں سارے اچھے کام کر لیتااور بابا کے پاؤں دباتا۔ تو بابا مجھے اپنے ساتھ لٹا لیتے۔ بابا کی چارپائی بہت بڑی تھی۔ بڑے بڑے پایوں والی۔ سفید کھیسوں والی۔ جو شام سے پڑے پڑے بہت ٹھنڈے ہو جاتے تھے۔ رات کی رانی کی خوشبو رات بھرآتی رہتی۔ ستارے اپنی اپنی جگہ نکلتے اور چمکتے رہتے۔ اور چاند اگر جس روز میرے بستر کے دوسری طرف جانے میں دیر کرتا تو صبح سورج کو جلدی جلدی خداحافظ کہتا۔

09 اکتوبر 2010

ثانا بابا

سب سے زیادہ برے مجھے اپنی بائیں جانب رہنے والے لگتے ہیں۔ برسوں سے ہم لوگ ساتھ ساتھ رہتے تھے۔ لیکن نوازش فیملی کبھی بھی میرے رعب تلے نہیں آئی۔ اپنی کامیابیوں کا کتنا بھی ڈھنڈورا پیٹو، بچوں کی کارکردگی بڑھا چڑھا کر پیش کردو، اپنے کرسٹلز بطور خاص منگوا کر دکھا دو۔ مسز نوازش کی گھنی مسکراہٹ پر کوئی آنچ نہیں آتی۔ ذرا جلن نہیں دکھاتیں۔ اور ویسی ہی ان کی دونوں بیٹیاں ہیں۔ ملنساری اور سلیقہ بھگارنے کو بس موقع چاہیے۔ اوپر سے ان کا بیٹا ۔ سارا وقت لان میں مختلف ورزشیں کرتا رہتا ہےلیکن گریڈز ایسے لاتا ہے جیسے کتاب ہر وقت ہاتھ میں رہتی ہو ۔دل خاک ہو جاتا ہے۔ کسی روز ایسی چوٹ لگنی ہے اس ٹارزن کو کہ جنگل میں منگل ہو جائے گا۔

 

12 جولائی 2010

سچ ادھورا ہے ابھی۔ انتساب


 لفظ کاش کے نام

جس کا سہ حرفی وجود
محبت سے نفرت تک
آرزو سے حسرت تک
سب ریاضتوں کا عنوان رہا ہے
کلمہء افسوس ہے مگر
حرف دعا بھی ہے۔

__________

سچ ادھورا ہے ابھی

رافعہ خان


22 جون 2010

ناپرساں


اس بولتے شہر میں میرا غم کون کب سنے

میرے شہر کے سارے لوگ، 

خود اپنے ارادوں کی نا قدری کی داستانیں بیان کرتے 

اس زمانے کی آگہی کے جرم سناتے

لوگوں کی جہالت کے غم مناتے ، بولتے مسکراتے جا رہے ہیں

سبھی کو اپنا غم سنانا ہے ابھی

راستوں میں ٹھوکریں کھاتے قدموں کے زخموں کے قصے

حکایت زندگی رقم کرتے خونچکاں ہاتھوں کی داستانیں

میرا غم کون کب سنے؟؟


__________

سچ ادھورا ہے ابھی

رافعہ خان


11 جون 2010

سچ ادھورا ہے ابھی

ابتدائی طور پر یہ دیباچہ میں نے پہلے ایڈیشن کی اشاعت کے وقت لکھا تھا۔ ایپل بک پر موجود نئی ای بک میں یہ تحریر شامل نہیں ہے۔ اس لیے اسے یہاں بلاگ پر شائع کیا ہے۔

 پیش نظم ۔سچ ادھورا ہے ابھی 

یہ میرا دوسرا مجموعہ کلام ہے۔ دوسرا قدم۔ جستجوئے آرزو میں کبھی تو ایک ہی جست میں قصہ تمام ہو جاتا ہے لیکن کبھی انتظار کی، پہچان کی، کوششِ پیہم میں صدیاں بیت جاتی ہیں۔ دوسرا قدم رکھنے کی جگہ ہی نہیں ملتی۔ خیالوں کا قریہ قریہ جھانک لیا جاتا ہے، جذبوں کے سمندر کے سمندر پار ہو جاتے ہیں، لفظوں کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے، پھر وقت کی گنجائش ہی ختم ہو جاتی ہے، دوسرا قدم رکھنے کی جگہ ہی نہیں ملتی۔ ناتمام افسانہ کوئی موڑ دے کر تہ کردیا جاتا ہے۔ میرے ساتھ لیکن نہ پہلا معاملہ ہے نہ دوسرا۔ بلکہ ایک ایسی صورت ہے جہاں ہر اٹھتا قدم ارتقاء کی اک کڑی بن جاتا ہے۔ درجہ بدرجہ مقصود حقیقی کی طرف لے جاتا ہے۔

10 مئی 2010

خوابوں کی داستاں

ازل سے انساں کی چاہت
روشنی کے سارے خواب
تاریکی کی عنایت ہیں
انہیں ہم تیرگی ہی میں دیکھتےہیں
تیرگی ہی میں چاہتے ہیں
اور جشن کی روشنی میں
خواب زدہ زخمی آنکھیں لیے
اپنی تاریک ریاضتیں بھول کر
سب کے ہمراہ مسکراتے ہیں

__________

سچ ادھورا ہے ابھی

رافعہ خان


18 مارچ 2010

زندگی اور بلاگ



 کچھ ایسا ہے کہ زندگی کو بلاگ کرنا بہت ہی مشکل عمل ہے، جو چیزیں میری زندگی کی جلی خبر ہیں، جن باتوں سے  میں حظ اٹھا رہی ہوں اور لکھنا چاہتی ہوں وہ صرف میرے لیے اہم ہیں۔ انکو اس بے تحاشا آبادی والی دنیا میں صرف میں یاد رکھنا چاہتی ہوں۔ جن کو سالوں بعد پڑھ کر میں وہی حظ اٹھا سکوں جو پہلی بار میں نے اٹھایا تھا۔ وہی درد محسوس کروں جس نے مجھے پہلی مرتبہ سوچنے پر مجبور کیا۔ اس سبق کو یاد رکھ سکوں جو میں نے آج سیکھا۔  تو اس کا باقی دنیا کے لیے اضافی ہونا ہی اصل مشکل ہے۔ اس کا بے سود ہونا ہی اصل روکاوٹ ہے۔ لکھنے اور نا لکھنے کے درمیاں یہی ہلکی، گہری لکیر کا سرمئی رنگ بھٹکاتا رہتا ہے۔

میرے کانوں میں جو باتیں گونجتی ہیں۔ میری آنکھیں جو تصویریں دیکھتی ہیں ان کو خاموش کرنا اور روکنا میرے بس میں نہیں۔ وہ یاد بن کر مجھ پر پہرہ دیتی رہتی ہیں۔میری یادوں کا مجھ پرپہرہ دار ہونے کا منفی اور تنہا کر دینے والا احساس مجھے بہت کوفت زدہ کرتا ہے۔ اور کبھی لکھنا پناہ بنتے بنتے قید خانہ بن جاتا ہے۔ میرا ہاتھ لفظوں کی خوبصورت قوس قزح کو چھوتے چھوتے کہیں ہوا میں لہرا کر رہ جاتا ہے اور جب میں دوبارہ دیکھوں تو بس سوچوں کی بیڑی باقی رہ جاتی ہے۔ ایسا شائد سب کے ساتھ ہوتا ہے۔

09 فروری 2010

جب محبت جھٹکی جاتی ہے

اڑتی سوچیں پر سمیٹے خیال افق پر گم ہو جاتی ہیں
دل اک تسلسل سے سانس گنتا
رکنے لگتا ہے

24 جنوری 2010

شکست کا شمار

اس برس سے پہلے کا برس
بھر اس سے پہلے
یا اس کے بعد
یہ سارے سال
تاریخیں، دن، گھڑیاں، ثانیے
نرم روی سے مجھے شمار کرتے گزر رہے ہیں
اور میں انکو گن رہی ہوں
مگر میں پہلے تھک جاؤں گی
۔

__________

سچ ادھورا ہے ابھی

رافعہ خان